’دنیا کی طرح پاکستان کو بھی منشیات سے فوائد حاصل کرنا ہوں گے‘

کراچی میں منشیات کے کنٹرول سے متعلق میٹنگ میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے انسداد منشیات شہریار آفریدی نے کہا ہے کہ پاکستان کو بھی منشیات کے مفید استعمال کی طرف توجہ دینا ہو گی۔

سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی تحریک انصاف کی حکومت منشیات کے طور پر استعمال ہونے والی اشیا کو فائدہ مند استعمال میں لانے کا پلان بنا رہی ہے؟ (فائل فوٹو:ٹوئٹر)

وفاقی وزیر برائے انسداد منشیات شہریار آفریدی نے کہا ہے کہ پاکستان کو بھی منشیات کے مفید استعمال کی طرف توجہ دینا ہو گی۔

کراچی میں منشیات کے کنٹرول سے متعلق چوتھی ٹرانس ریجنل کوآپریشن میٹنگ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کی طرح پاکستان کو بھی منشیات سے فوائد حاصل کرنا ہوں گے۔

شہریار آفریدی نے منگل کومنشیات کے کنٹرول سے متعلق میٹنگ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فنسنگ منشیات کی روک تھام میں اہم اقدام ہوگا، دنیا کو منشیات کی روک تھام کے لیے پاکستان کا ساتھ دینا ہوگا، وزیراعظم جو بھی فیصلہ کرتے ہیں وہ نیک نیتی پر مبنی ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ منشیات کی روک تھام کے لیے ہمارے افسران اور جوانوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے دنیا بھر کے ممالک کو منشیات کی روک تھام کے لیے آگے آنا ہوگا۔ دنیا میں سب سے زیادہ منشیات افغانستان میں پیدا ہورہی ہیں، سرحدی باڑلگانے کے عمل سے منشیات کی روک تھام میں اہم مدد ملے گی۔

کچھ عرصہ قبل وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی وزیر زرتاج گل کہہ چکی ہیں کہ بھنگ کا پودا بائیو فیول بنانے میں کام آسکتا ہے۔

سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی تحریک انصاف کی حکومت منشیات کے طور پر استعمال ہونے والی اشیا کو فائدہ مند استعمال میں لانے کا پلان بنا رہی ہے؟

ایک سینئیر حکومتی اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فی الحال ایسے کسی پراجیکٹ پر کام نہیں ہو رہا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ منشیات کے مفید استعمال پر ایک آدھ اجلاس میں بات ضرور ہوئی ہے۔ تاہم اس متعلق کوئی حتمی بات کرنا قبل از وقت ہو گا۔

پاکستان میں منشیات کا استعمال

سال 2013 میں پاکستان میں منشیات کے استعمال سے متعلق کیے جانے والے سروے کے مطابق چالیس لاکھ سے زیادہ پاکستانی مختلف قسم کی منشیات استعمال کرتے ہیں۔ اور انہیں اس سے چھٹکارہ پانے کے لیے علاج کی ضرورت ہے۔

سروے کے مطابق چرس پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی منشیات ہے۔ جو کم از کم چالیس لاکھ لوگ استعمال کرتے ہیں۔

جرمن کمپنی اے بی سی ڈی کی تحقیق کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی دنیا میں سب سے زیادہ چرس استعمال کرنے والے شہروں میں نیویارک کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ یہاں سالانہ 42 ٹن چرس استعمال کی جاتی ہے۔

سرکاری سروے کے مطابق پاکستان میں آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار لوگ ہیروئن کا استعمال کرتے ہیں۔ لاکھوں لوگ مختلف قسم کے درد کی دوائیاں نشے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

منشیات آتی کہاں سے ہیں؟

پاکستان میں افیون کی کاشت تقریبا ختم کر دی گئی ہے۔ شمال مغربی صوبہ خیبر پختون خوا اور جنوبی صوبہ سندھ میں منشیات کے بنانے میں استعمال ہونے والے اس پودے کی کاشت بہت کم رہ گئی ہے۔

تاہم پڑوسی ملک افغانستان میں افیون کی کاشت اب بھی جاری ہے۔ اور دنیا میں کاشت ہونے والی افیون کا نوے فیصد سے زیادہ حصہ افغانستان میں اگایا جاتا ہے۔

اسی افیون سے چرس اور ہیروئن بنائی جاتی ہیں۔ اور دونوں مادوں کے غیر قانونی کارخانے افغانستان میں موجود ہیں۔

افغانستان سے افیون، چرس اور ہیروئن دنیا بھر کو  اسمگلنگ کے ذریعے بھیجی جاتی ہے۔ اور  اس کا آسان راستہ پاکستان سے ہو کر گذرتا ہے۔

منشیات کا مفید استعمال

علم دواسازی (فارماکالوجی) کے مطابق منشیات ایک معلوم ساخت کا  کیمیاوی مادہ ہے  جو کسی جاندار کو دیا جائے تو اس کے  جسم میں ایک حیاتیاتی اثر پیدا  کرتا ہے۔ اور یہ حیاتیاتی اثر اکثر انسانی جسم کو نقصان پہنچاتا ہے۔

انسانی جسم کے جو حصے منشیات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ان میں پھیپھڑے، جگر، خون کی شریانے، دل، گردے، معدہ، منہ، سانس کی نالی اور حلق شامل ہیں۔

اسلام آباد میں مختلف نشوں کے شکار لوگوں کا علاج کرنے والے ادارے انسی ٹیوٹ ری ہیبیلی ٹیشن اینڈ ڈرگ ایڈکشن (ارادہ) کے چیف ایگزیکٹیو محمد اظہرکا کہنا تھا: منشیات کے طور پر استعمال ہونے والی اشیا کیمیاوی مادے ہی ہوتے ہیں۔ اور ان کے مفید استعمال ضرور موجود ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ چند ایک کے علاوہ  منشیات کے طور پر استعمال ہونے والی تقریبا تمام اشیا قدرتی طریقوں سے حاصل کی جاتی ہیں۔ اور ان کے مفید استعمال موجود ہیں۔

محمد اظہر نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ چرس میں سے اگر ایچ ٹی سی نامی مادہ نکال دیا جائے تو چرس دردوں کی دوائی کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ منشیات دراصل درد ختم کونے اور تھکاوٹ دور کرنے کی دوائیاں ہی ہیں۔ تاہم یہ بہت زیادہ مقدار میں استعمال کی جائیں تو انسان کے اعصابی نظام کو بلاک کر دیتی ہیں۔

تاہم محمد اظہر کا کہنا تھا کہ نشہ آور مادوں کو مفید بنانا ایک طویل اور مہنگا کام ہے۔

یہ اتنی آسانی سے نہیں ہو گا۔ اور پاکستان میں اس پر کم  از کم دس سے پندرہ سال لگ سکتے ہیں۔

راولپنڈی میں نشے کے شکار لوگوں کی بحالی کے کام میں ملوث ایک سماجی کارکن فیض محمد کا کہنا تھا: نشئی صرف قدرتی طور پر حاصل ہونے والی منشیات استعمال نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں قالینوں کو زمین سے چسپاں کرنے والی سریش (صمد بانڈ) بھی نشے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔

فیض محمد کا کہنا تھا کہ آپ چرس اور بھنگ کے مفید استعمال نکال لیں گے تو صمد بانڈ کا کیا کریں گے۔

محمد اظہر نے اس سلسلے میں ایک دوسرے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نشہ آور کیمیاوہ مادوں کے مفید استعمال سے قبل حکومت کو بڑے پیمانے پر قانون سازی کرنا ہو گی۔

پاکستان میں ایک سے زیادہ ایسے قوانین موجود ہیں جن کے تحت نشے کے طور پر استعمال ہونے والی قدرتی اور غیر قدرتی اشیا کا رکھنا، خریدوفروخت، استعمال کرنا، ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا غیر قانونی ہے۔

محمد اظہر نے کہا کہ ان تمام قوانین خصوصا انٹی نارکوٹکس فورس کے قوانین میں ترامیم کرنا ہوں گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان