سلیکٹڈ کون نہیں

سلیکٹڈ امیر ترین لوگ بھی اس ملک میں نہ پورا ٹیکس دینا چاہتے ہیں اور نہ کسی کاروباری مفاد کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔

پچھلے دنوں پی پی پی کے چیرمیئن بلاول بھٹو زرداری نے یہ بیان دیا کے صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ میاں نواز شریف بھی ’سلیکٹڈ‘ ہیں۔ یہ بات مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو ناگوار گزری ہے اور کچھ شکوہ بھی ہوا ہے۔

لیکن لیگی سیاستدان یہ نہیں بتا رہے کے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں شہباز شریف نے جو تقریر کی تھی کیا وہ سیلکٹرز سے نوکری کی درخواست نہیں تھی۔ یہ بھی کوئی نہیں بتا رہا کے اگر اگلے الیکشن میں سلیکشن منظور نہیں ہے تو پھر کیا وجہ بنی کے تمام جماعتیں ایکسٹنشن قانون سازی میں سربسجود ہو گئی اور ووٹ کو عزت دو کا نظریہ کہیں کھو گیا۔

حقیقت یہ ہے کے ایسا پہلی دفعہ نہیں ہو رہا۔ میاں نواز شریف کی سیاست ہی سلیکشن سے شروع ہوئی اور جب وہ سعودی عرب کی جلاوطنی کے بعد واپس پارلیمان میں گئے تو میمو گیٹ میں کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ بھی اگلے الیکشن میں سلیکشن کی یقین دھانی کی کوشش تھی۔ پوری مسلم لیگ ن اس بات پر قائل ہے کہ سلیکشن ہی اقتدار میں آنے کا راستہ ہے۔ عوام کا ان لوگوں سے تعلق بس سطحی ہے۔ پارٹی کا نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ قابل ٹیم موجود ہے جو تخلیقی صلاحیت رکھتی ہو تاکہ ملک کے مسائل کے نئے حل ڈھونڈے جائیں۔ جب بھی حکومت میں آتے ہیں وہی پرانے فارمولے لگاتے ہیں جو پچھلے 70 سال نہ چل سکے۔

مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی واحد جماعتیں نہیں ہیں جو سلیکشن کی وجہ سے اقتدار میں آئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں کچھ سلیکٹڈ خاندان اور ادارے ہیں جو اس ملک اور اس کے عوام کو اپنا محکوم رکھنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ چند خاندانوں کا سیاسی پارٹیوں پر قبضہ ہے اور باقیوں کا اضلاع پر۔ پوری پارلیمان انہی سلیکڈڈ خاندانوں پر مشتمل ہے۔ یہ کبھی ایک پارٹی میں ہوتے ہیں اور جب ہوا بدلتی ہے تو دوسری پارٹی میں چلے جاتے ہیں۔ ہر خاندان کا ایک فرد ایک پارٹی میں تو دوسرا فرد دوسری پارٹی میں۔ ایک ہی خاندان کے لوگ ضلع ناظم سے لے کر سینٹ تک موجود ہیں۔ اور اب تو یہ خاندان سول اور فوجی بیوروکریسی میں بھی بااثر ہو چکے ہیں۔

یہ سلیکٹڈ خاندان بجٹ بھی ایسا بناتے ہیں جس میں سکول اور ہسپتال کو سب سے کم پیسے دیئے جائیں۔ جو پیسے رکھے بھی جاتے ہیں وہ اس طرح خرچ ہوتے ہیں کے انتہائی خراب معیار کے سکول تعمیر ہوتے ہیں جن میں سے اکثر چل بھی نہیں رہے۔ مقصد یہی ہے کے عوام تعلیم یافتہ نہ ہو سکے تاکہ ان کی حکمرانی سے انکاری نہ ہوں۔ پڑھا لکھا آدمی غلامی کو قبول نہیں کرتا۔ آپ کسی بھی ضلع میں چلے جائیں آپ کو ایسے بے شمار پروجیکٹ مل جائیں گے جو نامکمل ہیں اور قوم کا اربوں روپیہ ان پر لگ چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سلیکٹڈ امیر ترین لوگ بھی اس ملک میں نہ پورا ٹیکس دینا چاہتے ہیں اور نہ کسی کاروباری مفاد کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔ پچھلے دنوں جب ایف بی آر نے شرط لگائی کے ہر کاروباری سودے کا ریکارڈ رکھا جائے تو کہرام مچ گیا جس میں ہر وہ حربہ اختیار کیا گیا کے یہ کام نہ ہو سکے۔ یہاں تک کے آرمی چیف کو بھی ان سے ملنا پڑا۔ جو سلیکٹڈ لوگ ٹیکس نہیں دیتے ان کے لیے ایمنسٹی سکیم کی سہولت موجود ہے۔

بہت سی ایسی سلیکٹڈ ہاوسنگ سوسائٹیاں ہیں جن کے سودے کسی سرکاری ادارے کو نہیں بتائے جاتے یعنی یہ تمام سودے ٹیکس سے مبرا ہیں۔ سلیکٹڈ صنعتیں بھی ہیں جو ہر وقت حکومت سے تقریباً مفت کی بجلی اور گیس مانگتے ہیں مگر برآمدات بڑھ کر نہ دیں۔

صرف دنیا دار ہی سلیکٹڈ نہیں ہیں بلکہ کچھ ایسی مذہبی ادارے بھی ہیں جن سے کوئی سوال نہیں کر سکتا کہ ان کو چندہ کون دیتا ہے اور ان کے ادارے قوم کے بچوں کو کس قسم کی تعلیم دے رہے ہیں۔

یہ تمام باتیں آپ کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ حالات زیادہ دن نہیں چل سکتے۔ موجودہ پاکستان نہ صرف ایک غیراسلامی ریاست کا رویہ رکھتا ہے بلکہ دنیاوی طریقے سے بھی یہ ریاست چلنے کے قابل نہیں ہے یعنی نہ ہم دین کے ہیں اور نہ دنیا کے۔ اب ہمیں اس ریاست اور جمہوریہ کو ایک نئے سرے سے منظم کرنا ہوگا۔ یہ ہم سب کی اجتماعی ضرورت ہے کہ اپنے معاشرے اور ملک کو بہتر طور پر ترتیب دیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ