دہلی فسادات: ’ہمیں مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا‘

ہندو اکثریتی محلے میں بلوائیوں نے مسلمانوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی، یہاں لوٹ مار کی اور پھر انہیں نذر آتش کر دیا۔

جب خورشید نے دروازہ کھولا تو ان کے جلے ہوئے گھر کے اندر سے ابھی تک تپش محسوس ہو رہی تھی۔ ان کی ہتھیلیاں اپنے خاکستر گھر سے باقی ماندہ سامان اٹھاتے ہوئے راکھ سے بھری ہوئی تھیں۔

خورشید کا گھر مسلمانوں کے ان آٹھ گھروں میں شامل تھا جن کو دہلی کے اس محلے میں ہندو بلوائیوں نے منگل کی سہ پہر اس وجہ سے نشانہ بنایا کیوں کہ وہ مسجد کے نزدیک تھے۔ ہندو اکثریتی محلے میں بلوائیوں نے مسلمانوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی، یہاں لوٹ مار کی اور پھر انہیں نذر آتش کر دیا۔

مسجد پر بھی حملہ کیا گیا جو گذشتہ تین روز سے جاری مذہبی فسادات کی ایک کڑی تھی جس میں اب تک 24 افراد مارے جا چکے ہیں۔

خورشید کا کہنا ہے 400 بلوائیوں کا جتھا منگل کی صبح اشوک نگر پہنچا اور انہوں نے مسلمانوں کی املاک پر حملے شروع کر دیے۔ پولیس اہلکاروں نے رہائشیوں کی جان بچاتے ہوئے انہیں اپنی حفاظت میں وہاں سے نکال کر قریبی سٹیشن منتقل کیا تاہم گنتی کے اہلکار مسجد کی توڑ پھوڑ شروع ہوتے ہی پیچھے ہٹ گئے۔

انہوں نے کہا: ’میرے گھر کو دیکھیے۔ ساری چیزیں جل کر خاکستر ہو گئیں، ہمارا تمام سامان، کپڑے، برتن، سب کچھ۔۔ ہم 11 افراد یہاں رہتے تھے۔ اب میں کیا کروں؟ ہم کہاں جائیں گے؟‘

اس کے بعد ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں بلوائیوں کو ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے ہوئے اس مسجد کی توڑ پھوڑ اور اس کے مینار پر بھارت اور ہنومان کے پرچم لہراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محلے کے نام پر ابہام کے باعث دہلی پولیس نے ٹوئٹر پر غلطی سے کہا کہ وہاں کسی مسجد کو نشانہ نہیں بنایا گیا تھا اور یہ ویڈیو غلط معلومات پر مبنی تھی جس کے بعد دائیں بازو کے حمایت یافتہ نیوز چینل ’ٹائمز ناؤ‘ نے سوچے سمجھے بغیر اسے جعلی فوٹیج قرار دیتے ہوئے ان لوگوں کی مذمت بھی کر ڈالی جو اسے ٹی وی پر شیئر کر رہے تھے۔

مسجد کے آس پاس کی عمارتوں سے اس وقت بھی دھواں نکل رہا تھا جب دی انڈپینڈنٹ نے بدھ کو اس حملے کے مسلمان متاثرین کے ساتھ ساتھ ان کے ہندو پڑوسیوں سے بھی ملاقات کی جنہوں نے انہیں باہر سے آنے والے بلوائیوں سے بچانے کی کوشش کی تھی۔

آٹو رکشہ ڈرائیور خورشید کا کہنا تھا کہ وہ اس سب کا ذمہ دار ہندوؤں کو نہیں ٹھہراتے بلکہ یہ مودی حکومت کے نئے شہریت کے قوانین کے باعث پیدا ہونے والی سخت کشیدگی کی وجہ سے ہوا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)  اور مجوزہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا باعث ہیں اور بھارت کے سیکولر آئین کے لیے خطرہ ہیں۔

خورشید اور دیگر مکینوں نے کہا ہے کہ وہ حملہ آوروں کو شناخت نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا: ’میں ان لوگوں کو نہیں جانتا جنہوں نے آ کر یہ (بلوہ) کیا- یہ سب صرف سیاست ہے۔ میں بہت افسردہ ہوں کہ میرے گھر والے اب اس صورت حال سے دوچار ہیں۔‘

ایک اور رہائشی پروین کا کہنا تھا کہ وہ اشوک نگر میں گذشتہ 25 سالوں سے مقیم ہیں۔ ان کے نزدیک آگ کی لپیٹ میں آنا اتنا تکلیف دہ نہیں تھا جتنا مشتعل بلوائیوں کی جانب سے ملحقہ مسجد کے ساتھ کیے گئے سلوک سے انہیں صدمہ ہوا۔

انہوں نے کہا: ’ہمیں اس لیے نشانہ بنایا گیا کیوں کہ ہم مسلمان ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’مسلمانوں کی تمام دکانیں جلا دی گئیں جب کہ کسی بھی ہندو کی دکان کو ہاتھ نہیں لگا۔ وہ ہمیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور ہمیں دوسرے مذاہب سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔‘

پروین کا کہنا تھا کہ پڑوس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے کبھی پریشانی نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا: ’ہم نے ہمیشہ مساجد اور مندروں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک ساتھ عبادت کرتے دیکھا ہے۔ ہم نے ہمیشہ یقین کیا ہے کہ ہم سب ایک جیسے ہیں۔‘

دوسرے مکینوں کی طرح پروین کا بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے ہندو ہمسایوں کے لیے کوئی برے جذبات نہیں رکھتیں کیوں کہ انہوں نے ہمیں بیرونی بلوائیوں سے بچانے کی کوشش کی تھی۔

لیکن وہ کہتی ہیں کہ جو کچھ ہوا ہے اس کے بعد وہ نہیں جانتیں کہ شہر میں صورت حال پرسکون ہو جائے گی۔

وہ صرف شکر گزار ہیں کہ جب مسجد پر حملہ ہوا تو اس وقت وہ گھر پر موجود نہیں تھیں۔

’یہ (مسجد) مکمل طور پر تباہ اور جل چکی ہے۔ یہ ہمیں اپنے گھروں کے جلنے سے بھی کہیں زیادہ برا لگتا ہے۔ جب ہم نے یہ سنا کہ انہوں نے مسجد کو نشانہ بنایا تو ہمیں گہرا صدمہ پہنچا۔  ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ لوگ ایسا بھی کر سکتے ہیں۔‘

نذر آتش کی گئی مسجد سے تھوڑا دور ہندو، پڑوسی دکانوں کے باہر بکھرے ہوئے سامان اور ملبے کے ڈھیر کو ہٹانے کا کام کر رہے تھے تاہم وہ میڈیا سے بات کرنے سے گھبرا رہے تھے۔

ایک 39 سالہ شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ بدھ کی سہ پہر وزیر اعظم نریندر مودی کے پرامن رہنے کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں تاہم ان کے نزدیک یہ بیان پیر کو آنا چاہیے تھا۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ صورت حال ’انتہائی کشیدہ‘ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم (ہندو مسلم برادریاں) یہاں ہمیشہ سے دوستانہ طور پر مل جل کر رہتے رہے ہیں۔ یہاں کوئی تناؤ نہیں تھا، ہم نے اپنا بچپن ایک ساتھ گزارا ہے۔ یہ کام بیرونی لوگوں کا ہے اور یہاں رہنے والے افراد کو ہی اس کشیدگی سے نمٹنا ہوگا۔‘

ان کا اشارہ چار مسلح پولیس افسران کی جانب تھا جو نذر آتش کی گئی مسجد کے باہر بیٹھے تھے۔

’اب کم از کم کچھ حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں تاہم ہم ایسے اقدامات کی توقع پہلے کر رہے تھے۔ وہاں کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے تھا۔‘

اگرچہ ان چار پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کچھ لوگوں کے لیے باعث اطمینان ہے تاہم مسجد کے قریب جلائے گئے ایک مسلمان کے گھر کے رہائشی نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس محلے کے لیے یہ تشدد انتہائی خوفناک انجام میں بدل گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’آج صورت حال قدرے پرامن ہے تاہم یہ دوبارہ کبھی بھی بدتر ہوسکتی ہے۔ یہاں کوئی پولیس نہیں ہے، پولیس کی کوئی بڑی تعیناتی نہیں، کچھ بھی نہیں ہے۔ میں واضح طور پر پریشان ہوں۔ یقیناً کسی ایسی جگہ پر پولیس کی بھاری نفری ہونا ضروری ہے جہاں ایک مسجد کو تباہ کر دیا گیا ہو۔‘

واضح طور پر گھبرائے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے جلتے ہوئے گھر کی جانب اس امید کے ساتھ جلدی واپس لوٹے ہیں کہ شاید ان کی اہم دستاویزات جلنے سے بچ گئی ہوں-

انہوں نے کہا: ’ہم محض اپنی زندگیاں بچانے کے لیے تمام دستاویزات اور تمام سامان کو پیچھے چھوڑ کر بھاگ پڑے تھے۔ اگر وہ (دستاویز) وہاں جل گئیں تو مجھے نوکری کیسے ملے گی؟ یہ حملے صرف املاک کو نقصان نہیں پہنچا رہے ہیں بلکہ یہ لوگوں کی زندگیاں تباہ کر رہے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا