کیا طالبان کے ہاتھوں ہلاک شدگان کے لواحقین اور خواتین خوش ہیں؟

افغان حکومت کا وفد 29 فروری کو دوحہ میں ہونے والے اس معاہدے میں شرکت نہیں کر رہا، افغان خواتین کو طالبان سے معاہدے پر الگ تحفظات ہیں اور جن کے پیارے طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہوئے وہ الگ پریشان ہیں۔

واشنگٹن اور طالبان ہفتہ (29 فروری) کو ایک معاہدے پر دستخط کے لیے تیار ہیں جس کے تحت افغانستان سے اپنی فوج کو مرحلہ وارنکالنے کے بعد امریکہ اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ ختم کر دے گا، جس کے بعد کابل اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو گا۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کی بدولت 40 برس سے زیادہ عرصے سے جنگ کے شکار افغانستان میں نئے دور کا آغاز ہو گا۔

لیکن اس کے بعد کیا ہوگا، کوئی اندازہ ہی لگا سکتا ہے۔ طالبان کے ارادوں پر سوالات موجود ہیں۔ افغانستان ایک بار پھر سیاسی بحران کی گرفت میں ہے، جس کی وجہ سے غربت کے شکار ملک میں حالات مزید خراب ہونے کا خطرہ ہے۔

امریکہ طالبان معاہدہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہو گا۔ معاہدے کے لیے فریقین کے درمیان ایک سال سے زیادہ مدت تک بات چیت جاری رہی جبکہ مذاکرات کے عمل میں رکاوٹ سے کئی بار پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔

اس معاہدے کی تفصیلات عام نہیں کی گئیں تاہم امید ہے کہ امریکی وزارت دفاع فوج کو افغانستان سے نکالنا شروع کر دے گی۔ اس وقت افغانستان میں 12 سے 13 ہزار کے درمیان امریکی فوجی موجود ہیں۔

امریکہ نے کہا ہے کہ آنے والے مہینوں میں ابتدائی طور پر تقریباً آٹھ ہزار چھ سو فوجی واپس بلائے جائیں گے۔ یہ امریکی فوجیوں کی وہی تعداد ہے جو 2016 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخاب کے بعد ورثے میں ملی۔ فوج کی تعداد میں مزید کمی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ طالبان کس طرح اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرتے ہیں۔ طالبان اب تک اشرف غنی کو امریکی کٹھ پتلی کہہ قرار مسترد کرتے آئے ہیں اور افغان فریقین کے درمیان جنگ بندی اور امن کے لیے ایک جامع معاہدے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان کے معاملے میں یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ وہ اس بات کی ضمانت دیں گے کہ القاعدہ اور داعش جیسے جہادی گروپوں کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت کبھی نہیں دی جائے گی کہ وہ دوسرے ملکوں میں حملوں کی منصوبہ بندی کرسکیں۔ یہ وہ امر ہے جسے ٹرمپ کے قریب ترین مشیر بھی انتہائی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق ہفتے کو ہونے والا یہ معاہدہ سات دن سے جاری جزوی جنگ بندی کے بعد ہو رہا ہے۔ افغانستان بھر میں جاری اس جنگ بندی کا مقصد متحارب فریقین کے درمیان اعتماد سازی اور یہ ظاہر کرنا ہے کہ طالبان اپنی فورسز کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔

اگرچہ افغانستان کے دیہی علاقوں میں اِکا دُکا حملے ہوتے رہے ہیں تاہم امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے منگل کو کہا ہے کہ جنگ بندی کی مدت ’کام کر رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم بہت بڑی سیاسی کامیابی کے دروازے پر ہیں۔‘

اقوام متحدہ کے مطابق طالبان اور امریکی فوج کے درمیان لڑائی کے دوران گذشتہ دس برس میں ایک لاکھ سے زیادہ افغان شہری مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ 2001 کے حملے کے بعد امریکی ٹیکس دہندگان کو فوج اور تعمیر نو کے اخراجات کے طور پر ایک کھرب ڈالر ادا کرنے پڑے۔

توقع ہے کہ ہفتے کو قطری دارالحکومت میں ہونے والے معاہدے کے موقعے پر 30 ملکوں کے نمائندے موجود ہوں گے تاہم خاص بات یہ ہے کہ افغان حکومت کے ایک عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ وہ اپنا وفد نہیں بھیجیں گے۔

افغان عہدیدار نے کہا: ’ہم ان مذاکرات کا حصہ نہیں ہیں۔ ہمیں طالبان پر اعتبار نہیں ہے۔‘

بدستور قائم نفرت کی یہ فضا طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات میں حائل ہو سکتی ہے۔ افغانستان میں کئی طرح کی کشیدگی موجود ہے جس کی وجہ سے ملک سیاسی بحران کے دھانے پر کھڑا ہے کیوں کہ امریکہ نے صدر اشرف غنی کی واضح حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ چند ماہ پہلے صدر اشرف غنی دوبارہ افغانستان کے صدر منتخب ہوئے تھے تاہم صدارتی انتخاب میں دھاندلی کے الزامات بھی لگائے گئے۔

دوسری جانب افغانستان میں تشدد میں کمی اور طالبان امریکہ مجوزہ معاہدے کے باوجود افغان خواتین بے یقینی کی کیفیت اور خوف کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت معاہدے میں فریق نہیں ہے اس صورت میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ طالبان دوبارہ اقتدار پر قبضے کی کوشش نہیں کریں گے اور ان کی کامیابی کی صورت میں خواتین ایک بار پھر بےجا پابندیوں کا شکار ہو جائیں گی۔

جانوروں کی معروف افغان ڈاکٹر اور کابل سمال اینیمل کلینک کی سربراہ 30 سالہ طاہرہ رضائی کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں طالبان پھر آ گئے تو خواتین کے حقوق متاثر ہوں گے۔ ان کی آزادی، خودمختاری اور کام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اپنے کام سے محبت ہے لیکن انہیں ڈر ہے کہ طالبان انہیں کام کرنے سے روکیں گے۔

ثریا پاک زاد خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے سرگرم ایک گروپ کی سربراہ ہیں۔ وہ مختلف پناہ گاہیں اور تعلیمی مراکز چلانے سمیت افغانستان بھر میں ورکشاپس کا اہتمام کرتی ہیں جہاں خواتین کو ملازمت کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان خواتین نے گذشتہ 17 برس میں شاندار ترقی کی ہے جن میں سیاست اور کاروبار کے شعبے بھی شامل ہیں۔ آنے والے مہینوں کے پیش نظر پاک زاد سنگین خطرے کا شکار ہیں۔ 48 سالہ پاک زاد نے امریکی میگزین دا ٹائمز سے بات چیت میں کہا: ’ہم نہیں جانتے کہ طالبان کے دماغ میں کیا ہے لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ طالبان تبدیل نہیں ہوئے۔ بندوقوں کی آواز بند کروانے کے لیے امن اچھی بات ہے لیکن یہ خوف برقرار ہے کہ ہماری آوازیں بھی خاموش کروا دی جائیں گی۔‘

ایک 24 سالہ آرٹسٹ اور ڈیزائنر زہرا کا کہنا تھا کہ افغان خواتین نے اپنے حقوق کے لیے بہت جدوجہد کی ہے، اب وہ ان حقوق سے محرومی برداشت نہیں کر سکتیں۔

دوسری جانب 23 سالہ حیدہ عیسیٰ زادہ، جو نوجوانوں کے لیے کام کرنے والے ادارے افغانستان یوتھ نیٹ ورک کی سربراہ ہیں، کا کہنا ہے کہ ’ہم نے معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے ہرروز کام کیا ہے۔ اگر طالبان ہمارے حقوق تسلیم نہیں کریں گے تو ہم انہیں تسلیم نہیں کریں گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا