کرونا وائرس: ’غلط معلومات اور افواہوں سے زیادہ نقصان کا خطرہ‘

پاکستان کے معروف طبی ماہرین نے کہا ہے بعض اوقات کسی وبا کی نسبت اس سے متعلق افواہیں اور غلط معلومات زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں، جس سے بہت نقصان ہوتا ہے۔

کوئٹہ میں لوگ کرونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر منہ پر ماسک پہنے نظر آ رہے ہیں (اےا یف پی)

گذشتہ سال دسمبر میں چین سے شروع ہونے والی کرونا وائرس کی وبا سے اب تک دنیا بھر میں تقریباً تین ہزار ہلاکتیں رپورٹ ہو چکی ہیں جبکہ  80 ہزار سے زیادہ افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں۔

چین کے مرکزی شہر ووہان سے شروع ہونے والی یہ بیماری دنیا کے 35 ملکوں کو متاثر کرنے کے بعد پاکستان بھی پہنچ گئی ہے۔

وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے منگل کی رات پاکستان اور ایران کے سرحدی قصبے تفتان سے واپسی پر کوئٹہ میں ملک کے اندر کرونا وائرس کے دو کیسز کی تصدیق کی تھی۔

کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے پاکستانی شہریوں میں مشترک بات یہ کہ دونوں حال ہی میں ایران سے واپس لوٹے ہیں، جہاں پچھلے چند دنوں میں اس وائرس سے متعدد اموات ہوئی ہیں۔

پاکستان میں کیا ہو گا؟

ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے پاکستان میں طبی وسائل کی فراوانی نہیں، جنہیں استعمال کر کے تیزی سے پھیلنے والی اس بیماری کے آگے بند باندھا جا سکے یا وبا کی صورت میں اس پر قابو پایا جا سکے۔

ایسی صورت حال میں یہ تشویش بجا لگتی ہے کہ اگر پاکستان میں کرونا وائرس کی بیماری نے وبائی شکل اختیار کر لی تو صورت حال بگڑ بھی سکتی ہے۔

تاہم حکومتی اہلکار اور طب کے شعبے سے وابستہ ماہرین پاکستان میں کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے حکومتی اقدامات سے کافی پراعتماد اور پر امید نظر آتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کراچی کے آغا خان یونیورسٹی ہسپتال سے وابستہ متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر سید فیصل محمود کے مطابق پاکستان کرونا وائرس کی وبا کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں کرونا وائرس کے مشتبہ افراد کی نگرانی کی سرگرمیاں زوروں سے جاری ہیں اور ایسے انتظامات کیے گئے ہیں کہ کسی مریض یا مشتبہ شخص کے حکام کی پہنچ سے بچ جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے۔ 

وفاقی وزارت صحت کے حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملک کے باہر سے آنے والے ہر مسافر کی سکریننگ کی جا رہی ہے جبکہ تمام بڑے شہروں میں ٹیسٹنگ کے مراکز قائم کر دیے گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کرونا وائرس کے مریضوں اور مشتبہ افراد کے علاج اور نگرانی کے لیے ہسپتالوں میں الگ وارڈز بھی قائم کر دیے گئے ہیں۔

وزارت صحت کے حکام نے مزید بتایا کہ کسی دور دراز علاقے سے کرونا وائرس کے مریض کو قریبی ٹیسٹنگ مراکز میں چیک کیا جائے گا اور بیماری ثابت ہونے کی صورت میں انہیں کسی بھی بڑے شہر میں اس مقصد کے لیے مختص ہسپتال منتقل کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا یہ سارا کچھ حکومت کے خرچے پر ہو گا۔

انتظامی اقدامات سے کنٹرول ممکن

لاہور میں واقع شوکت خانم کینسر ہسپتال سے وابستہ متعدی بیماریوں کی ماہر ڈاکٹر سمیعہ نظام الدین کا کہنا ہے پہلے تو پاکستان میں کرونا وائرس کی بیماری وبا کی شکل اختیار نہیں کرے گی اور اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو محض بہتر انتظامی اقدامات کے ذریعے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا اگر مشتبہ افراد کی بہتر طریقے سے نشاندہی ہو سکے اور مریضوں کو صحت مند لوگوں سے دور رکھا جا سکے تو کرونا وائرس سے ہونے والے نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر سمیعہ کا خیال ہے کہ وائرس سے متاثر ہونے والوں کی بڑی تعداد کو صحت کے بہت زیادہ مسائل نہیں ہوں گے۔ ’بہت کم تعداد ایسے مریضوں کی ہو گی جنہیں اسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔‘

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کم تکلیف میں مبتلا مریضوں کو گھر پر بھی الگ تھلگ رکھ کر ان کا علاج کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صرف ایسے مریضوں کو ہسپتال داخل کرنا ہو گا جنھیں انکیوبیٹر یا ونٹیلیٹر کی ضرورت ہو گی۔

ڈاکٹر سمیعہ نے کہا کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی نشاندہی، مریضوں کو الگ تھلگ رکھنا اور صحت مند افراد کو وائرس سے بچا کر  اس مہلک بیماری کو وبا بننے سے پچایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا یہ تمام احتیاطیں ایسی ہیں جو انتظامی اقدامات کے ذریعے پوری کی جا سکتی ہیں، جو اگر بروقت اور صحیح ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں کرونا وائرس کو وبا بننے سے نہ روکا جا سکے۔

کرونا وائرس بہت خطرناک نہیں

بین الاقوامی ادارہ صحت سے حاصل کردہ اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں میں شرح اموات وائرس کی وجہ سے ہونے والی دوسری بیماریوں سے بہت کم ہے۔

مثال کے طور پر کتّے کے کاٹے سے ہونے والی بیماری ریبیز کے مریضوں میں شرح اموات سو فیصد ہے جبکہ برڈ فلو میں یہی اوسط 60 فیصد ہے، لیکن کرونا وائرس کے مریضوں میں شرح اموات محض دو فیصد ہے۔

یعنیٰ 98 فیصد لوگ اس بیماری کا شکار ہونے کے باوجود بخیر و عافیت صحت یاب ہو جاتے ہیں۔

کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کتنی کم خطرناک ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مریض سے یہ بیماری صرف تین دوسرے افراد کو منتقل ہو سکتی ہے جبکہ خسرہ کا ایک مریض کم از کم 15 صحت مند افراد میں بیماری منتقل کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر سید فیصل محمود نے کہا کہ کرونا وائرس بیماری میں مبتلا شخص چھینک اور کھانسنے کے ذریعے جراثیم دوسرے لوگوں کو منتقل کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ جراثیم مریض سے صرف تین میٹر دور گرتے ہیں اور اگر صحت مند لوگ کرونا وائرس کے مریض سے اتنا فاصلہ رکھیں تو وائرس کی منتقلی مزید کم ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر سمیعہ کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی بیماری میں مبتلا شخص کو ہر صورت چہرے پر ماسک پہننا چاہیے۔ اس کا مقصد مریض کے ارد گرد موجود صحت مند افراد کو وائرس سے محفوظ رکھنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے مریضوں کو محض الگ تھلگ رکھ کر ہی بیماری کا پھیلاؤ محدود کیا جا سکتا ہے۔

کرونا وائرس کی بیماری کے کم خطرناک ہونے کا ایک دوسرا ثبوت یہ ہے کہ یہ عام طور پر 80 سال سے زیادہ عمر کے اور پہلے سے کسی بیماری خصوصاً سانس سے متعلق میں مبتلا افراد کو ہوتی ہے۔

بین الاقوامی ادارہ صحت کے مطابق 40 سال سے کم عمر کے صحت مند افراد کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

غلط معلومات

ڈاکٹر فیصل محمود کا کہنا تھا کہ دنیا میں وباؤں سے ہونے والے نقصان میں افواہوں اور غلط معلومات کے پھیلائے جانے کا زیادہ دخل ہوتا ہے۔

بین الاقوامی ادارہ صحت نے  وباؤں سے متعلق افواہوں کے لیے ایک نئی ٹرم کا اختراع کیا گیا ہے جسے ’اِنفوڈیمک‘ کہا جاتا ہے۔

ایپی ڈیمک (وبا) اور انفارمیشن (معلومات) کے امتزاج سے بننے والی اس ٹرم کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل محمود نے کہا: بعض اوقات کسی وبا کی نسبت اس سے متعلق افواہیں اور غلط معلومات زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں، جس سے بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کرونا وائرس کے سلسلے میں افواہیں اور غلط معلومات پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے اور نہ ہی ان پر توجہ دینا چاہیے۔

ڈاکٹر سمیعہ نے کہا کہ افواہوں کی وجہ سے لوگ گھبرا جاتے ہیں، جو کسی وبا کی صورت میں بہت خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں چہرے پر پہننے والے ماسک کی نایابی اور قیمتوں میں اضافے کی مثال دی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ محض افواہوں اور غلط معلومات کی وجہ سے ہوا۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت