دوحہ: طالبان امریکہ امن معاہدہ آج، لیکن دستخط کون کرے گا؟

اگرچہ معاہدے کی تفصیلات کے بارے میں دونوں فریق کچھ زیادہ نہیں بتا رہے لیکن اطلاعات یہی ہیں کہ دونوں آخری وقت تک اس کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور اسے کسی قیمت پر کسی بھی خطرے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دوحہ: ہزاروں اموات، اربوں ڈالر کے مالی نقصان اور سیاسی داؤ پیچ کے بعد بالآخر افغانستان قضیے کے دو اہم ترین فریق امریکہ اور طالبان دوحہ میں آج یعنی سنیچر کو ایک تاریخی امن معاہدے پر دستخط کرنے جا رہے ہیں۔

معاہدے پر دستخط کی تقریب دوحہ کے شیرٹن ہوٹل میں دو بجے منعقد ہو گی۔ خیال ہے کہ امریکہ کی جانب سے وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور طالبان کی جانب سے دستخط ملا عبدالغنی برادر کریں گے۔ اسی ہوٹل میں افغان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا آخری دور ہوا تھا۔

اگرچہ معاہدے کی تفصیلات کے بارے میں دونوں فریق کچھ زیادہ نہیں بتا رہے لیکن اطلاعات یہی ہیں کہ دونوں آخری وقت تک اس کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور اسے کسی قیمت پر کسی بھی خطرے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک بڑی احتیاط دونوں کی جانب سے میڈیا سے اس بارے میں کوئی بات کرنے سے انکار ہے۔ میڈیا کی بڑی تعداد اس معاہدے کی کوریج کے لیے دوحہ پہنچ چکی ہے اور طالبان اور امریکی حکام سے رابطے کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ کسی کو جواب نہیں دے رہے۔

اس اپنی نوعیت کے پہلے معاہدے کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو اب تک ملنے والی معلومات کے مطابق اس پر دستخط کے فوراً بعد آئندہ دو ہفتوں میں طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کرنی ہے۔ ایسا ہو گا یا نہیں اس بارے میں کافی شک پایا جاتا ہے کیونکہ طالبان نے ہمیشہ کابل میں حکمرانوں کو ’امریکہ کا پٹھو‘ قرار دے کر مذاکرات سے انکار کیا ہے۔

لیکن افغان حکام اشارے دے رہے ہیں کہ شاید یہ ممکن ہو سکے گا۔ افغانستان کا سرکاری میڈیا خبریں دے رہا ہے کہ افغان حکومت کی پیشگی ٹیم، جسے رابطہ گروپ کہا جا رہا ہے، دوحہ کے لیے روانہ ہو چکی ہے۔ اس وفد میں افغان سکیورٹی مشیر سلیم شاہ ابراہیم، وزارت امن کے نائب وزیر عبدالخالق بالا کرزئی اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں۔

افغان حکام کا کہنا ہے کہ یہ مذاکراتی وفد نہیں لیکن مذاکرات کیسے شروع کیے جائیں گے یعنی ابتدائی ایجنڈے پر طالبان کے ساتھ بات کرنے کے لیےانہیں بھیجا جا رہا ہے۔ طالبان نے اس خبر پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ انہوں نے کسی وفد کو نہیں بلایا ہے۔ تاہم اگر وہ اس وفد سے ملتے ہیں تو یہ افغان حکومت سے ان کے مذاکرات کا آغاز تصور کیا جائے گا۔

افغان طالبان اپنے پانچ ہزار جنگی قیدی بھی امریکہ کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں رہا کروانا چاہتے ہیں۔ انہیں کہا گیا ہے کہ اس بارے میں افغان حکومت سے بات کریں۔ توقع ہے کہ اگر اس سرکاری وفد سے طالبان کی بات ہوتی ہے تو اس میں قیدیوں کی رہائی کا موضوع بھی شامل ہو گا۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں امریکہ کے لیے تو اس کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہو گا، لیکن افغان طالبان کے لیے بھی کسی کامیابی سے کم نہیں۔ دونوں جانتے تھے کہ اس بظاہر نہ ختم ہونے والی جنگ سے دونوں تھک چکے ہیں اور نکلنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کو معلوم تھا کہ وہ یہ جنگ جیت نہیں سکتا جبکہ طالبان کو بھی علم تھا کہ وہ دوبارہ افغانستان میں اقتدار میں جنگ کے نتیجے میں نہیں آ سکتے۔

دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کی تفصیل کیا ہے یہ ابھی مکمل طور پر واضح نہیں لیکن جو بات طے ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ مرحلہ وار فوجیوں کا انخلا کرے گا اور طالبان افغانستان کو مغرب کے خلاف دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔ لیکن اس میں ابھی واضح نہیں کہ سب سے زیادہ پسنے والی افغان عوام کا کیا ہو گا؟ انہیں سکھ کا سانس لینے کا موقع کب ملے گا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاہدے کے بارے میں باضابطہ تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن انڈپینڈنٹ اردو کی معلومات کے مطابق امریکی انخلا 14 ماہ میں بتدریج مکمل ہو گا اور طالبان دہشت گرد گروپوں جیسے کہ القاعدہ سے اپنے آپ کو دور رکھیں گے۔

اس معاہدے کے بارے میں بعض باتیں واضح ہیں۔

1۔ جنگ بندی ابھی نہیں

معاہدے سے قبل ایک ہفتہ تک تشدد میں کمی کو طالبان کے اصرار پر جنگ بندی نہیں کہا جا رہا ہے۔ لیکن اس عرصے میں امریکہ، طالبان اور افغان حکومت نے اپنی کارروائیاں روک لی تھیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ تشدد میں کمی سے متعلق شرائط کافی واضح ہیں کہ طالبان خودکش حملے، بارودی سرنگوں اور راکٹ حملوں کا استعمال نہیں کریں گے۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کے سربراہ جنرل سکاٹ ملر اس ہفتے کی نگرانی کرنے پر مامور تھے اور حتمی رپورٹ دیں گے۔

2۔ رکاوٹیں کیا پیدا ہو سکتی ہیں؟

افغانستان میں چونکہ ایک دو فریق نہیں بلکہ کئی ملکی اور غیرملکی فریقین بھی ملوث ہیں تو ایسے میں کسی بھی معاہدے کو سبوتاژ کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ سب سے بڑا خوف تو یہی ہے کہ طالبان کے اندر اس معاہدے کی کتنی حمایت موجود ہے۔ ایک ہفتے کی کارروائیاں روکنا ایک جگہ اور مستقل معاہدہ اپنی جگہ۔ خدشات ہیں کہ خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی تنظیم خود کوئی حملہ کر کے طالبان کو بدنام کر سکتی ہے۔ پھر یہ بھی شک ہے کہ کہیں طالبان خود کوئی حملہ کریں اور نام کسی اور کا لگا دیں۔

تاہم پینٹاگان حکام پراعتماد ہیں کہ جو بھی کوئی کارروائی کرے گا انہیں حقیقت معلوم ہو جائے گی۔

بیرونی عناصر کو پاکستان کے کردار پر بھی شک رہا ہے۔ کئی لوگوں کو شک ہے کہ اگر صورت حال پاکستان کے حق میں نہیں جا رہی ہو گی تو کہیں وہ کوئی مسئلہ کھڑا نہ کر دیں۔

فی الحال پاکستان کی صدر ٹرمپ کو بظاہر مکمل حمایت حاصل ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان نے ایک بیان میں اس امید کا اظہار کیا کہ افغان فریقین اس ’تاریخی موقعے سے فائدہ اٹھائیں گے اور ایک جامع اور سب کو شامل کرنے والے تصفیے کی کوشش کریں گے۔‘

تو کیا پاکستان اس مرتبہ اس معاہدے کی مکمل حمایت کر رہا ہے؟ سینیئر صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے آپس میں مذاکرات شروع کرنے کا اپنا فیصلہ تھا۔ ’دوحہ میں سیاسی دفتر کھولنے کا فیصلہ ملا محمد عمر کے وقت میں ہوا تھا اور بعض لوگ یہاں بھیجے بھی گئے تھے۔ اس فیصلے کے بعد پھر پاکستان کی سہولت کاری شامل ہوئی۔ طالبان کا قطر آنا پاکستان کے بغیر ممکن نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ملا بردار کی اہم رہائی زلمے خلیل زاد کی درخواست پر ہوئی جو آگے چل کر سیاسی دفتر کے سربراہ مقرر ہوئے۔ ’قطر میں اکثر طالبان کے پاس پاکستان کے پاسپورٹ ہیں، یہ بھی سہولت کاری تھی۔‘

انہوں نے یاد دلایا کہ گذشتہ برس سات ستمبر کو جب صدر ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ روک دیا تو پھر طالبان اکتوبر میں اسلام آباد آئے اور اس دورے کے نتیجے میں دسمبر میں بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ ’پاکستان نے فیسلیٹیٹ بہت کیا لیکن مذاکرات میں شامل نہیں تھا۔ اس میں صرف قطر شریک تھا۔‘ 

پاکستان اور بھارت کی افعانستان میں سرگرمیوں سے متعلق کیا ضمانتیں ملیں ہیں یہ بھی مستقبل کی صورت حال کے لیے انتہائی اہم پہلو ہو گا۔ پھر اسلام آباد میں افغان سفیر کی وجہ سے بھی دونوں ہمسایہ ممالک میں کشیدگی دیکھی جا رہی ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی دوحہ تقریب میں شرکت کریں گے۔

3۔ امریکی انخلا کی صورت کیا ہو گی؟

امریکہ ابھی فی الحال مکمل انخلا کے لیے تیار نہیں۔ اطلاعات ہیں کہ 14 ماہ میں ماسوائے چند سو امریکی فوجیوں کے باقی تمام مناسب ماحول برقرار رہنے پر واپس لوٹ جائیں گے۔ پینٹاگون نے نہیں بتایا کہ کیا امریکہ نے مکمل انخلا پر رضامندی ظاہر کی ہے یا نہیں لیکن حکام افغانستان میں انسداد دہشت گردی فورس فی الوقت وہاں رکھنے کی تصدیق کر رہے ہیں۔ 

اس وقت افغانستان میں تقریباً 12 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق ’کچھ عرصے‘ میں اسے ساڑھے آٹھ ہزار تک کم کیا جائے گا۔ طالبان تاہم مکمل انخلا کے طور پر اس معاہدے کو بیچ رہے ہیں۔

4۔ سب سے مشکل افغان مذاکرات

افغان امور کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ معاہدے کے بعد سب سے زیادہ مشکل کام طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔ اس کے بغیر قیام امن ناممکن رہے گا۔ طالبان افغان حکومت کو امریکہ کی حمایت یافتہ کٹھ پتلی انتظامیہ قرار دیتے ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی معمولی سی اکثریت کے ساتھ دوبارہ صدر منتحب ہوئے ہیں لیکن ان کے سیاسی حریفوں کو یہ قبول نہیں اور عبداللہ عبداللہ اپنی حکومت قائم کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ایسے میں کیا وہ اس حالت میں ہوں گے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر سکیں؟


نوٹ: جمعے کو پوسٹ ہونے والی یہ رپورٹ ہفتے کو اپ ڈیٹ کی گئی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا