افغانستان: گذشتہ دو دہائیوں میں کب، کیا ہوا؟

گذشتہ دو دہائیوں میں افغانستان میں کون سے اہم واقعات ہوئے، اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ایک ٹائم لائن مرتب کی ہے۔

قطر میں پچھلے 18 ماہ سے امریکہ اور افغان طالبان رہنماؤں کے درمیان امن مذاکرات جاری تھے (اے ایف پی)

افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان اور امریکہ کے درمیان آج دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کی صورت میں ایک تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے۔

گذشتہ دو دہائیوں میں افغانستان میں کون سے اہم واقعات ہوئے، اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ایک ٹائم لائن مرتب کی ہے جو درج ذیل ہے:

15 اکتوبر، 1999: اقوام متحدہ نے قرار داد نمبر1267 کے ذریعے القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروپ قرار دے کر ان پر پابندیاں عائد کر دیں۔

نو ستمبر، 2001: شمالی اتحاد کے سربراہ احمد شاہ مسعود کو القاعدہ نے قتل کردیا۔

11 ستمبر، 2001: القاعدہ نے چار امریکی جہاز ہائی جیک کر کے تین کو امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹا گون سے ٹکرا دیا جب کہ چوتھا جہاز ریاست پنسلوانیا میں کھیتوں میں گر گیا۔ ہائی جیکروں کا تعلق مصر اور سعودی عرب سے بتایا گیا۔

اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے طالبان سے القاعدہ رہنماؤں کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔

18ستمبر،2001: صدر جارج ڈبلیو بش نے امریکہ کے دونوں ایوانوں کی منظور شدہ قرار داد پر دستخظ کر دیے جو انہیں امریکی شہریوں کے تحفظ کے لیے جنگ سمیت تمام ممکنہ اقدامات کی اجازت دیتی تھی۔

سات اکتوبر،2001: امریکہ نے برطانوی فوج کی مدد سے افغانستان میں ’مستقل آزادی‘ کے نام سے فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا۔ کینیڈا، جرمنی اور فرانس نے بھی تعاون کا یقین دلایا۔ابتدا میں فضائی حملے کیے گئے اور ایک ہزار امریکی کمانڈوز کو شمالی اتحاد اور طالبان مخالف گروہوں کی مدد کے لیے بھیجا گیا جبکہ باقاعدہ فوج اس کے 12 روز بعد بھیجی گئی۔

نومبر2001: عبدالرشید دوستم کی فوجوں نے جیسے ہی مزار شریف سے طالبان کا قبضہ چھڑایا تو اس کے بعد طالبان پسپا ہونے شروع ہو گئے۔ بامیان اور تعلقان 11 نومبر، ہرات 12 نومبر،کابل 13 نومبراور جلال آباد 14 نومبر کو طالبان سے آزاد کروا لیے گئے۔ 14 نومبر کو اقوام ِمتحدہ نے ایک قرار داد پاس کی جس کے تحت افغانستان میں نگران افغان حکومت کے قیام میں اقوام متحدہ کا اہم کردار ہو گا۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنی افواج بھیجیں گے۔

دسمبر2001: اسامہ بن لادن کابل سے تورہ بورہ فرار ہو گئے، جہاں پر تین سے 17 دسمبر تک پہاڑوں میں افغان ملیشیا کے ساتھ ان کی جنگ جاری رہی جس میں کئی جنگجو مارے گئے۔

16 دسمبر کو اسامہ کے 20 قریبی لوگ تورہ بورہ میں گرفتار ہو گئے اور اسامہ بن لادن گھوڑے پرفرار ہو نے میں کامیاب ہو گئے۔ تورہ بورہ میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کے باوجود امریکہ نے وہاں کوئی کارروائی نہیں کی۔ تورہ بورہ میں القاعدہ کے خلاف نبرد آزما جنگی کمانڈروں حضرت علی،حاجی زمان اور حاجی ظاہر نے اسامہ بن لادن کے فرار پر امریکہ کو موردالزام ٹھہرایا۔

پانچ دسمبر، 2001: طالبان کی کابل سے پسپائی کے بعد اقوام متحدہ نے افغانستان کے تمام گروہوں جن میں شمالی اتحاد اور افغانستان کے سابق شاہ بھی تھے انہیں بون میں مدعو کیا جہاں شرکا بون معاہدے پر متفق ہو گئے۔اس معاہدے کے لیے ایران نے اہم کردار ادا کیا۔ حامد کرزئی کونگران حکومت کا صدر منتخب کیا گیا۔

نو دسمبر،2001: طالبان نے قندھار میں بھی ہتھیار ڈال دیے جس سے افغانستان سے طالبان دور کا خاتمہ ہوگیا۔ ملا عمر شہر سے فرار ہو گئے۔

مارچ 2002: پکتیا صوبہ کی شاہی کوٹ وادی میں طالبان اور القاعدہ کے 800 سے زائد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن ’ایناکونڈا‘ لانچ کیا گیا، جس میں دو ہزار امریکی اور ایک ہزار افغان فورسز نے حصہ لیا۔ لیکن اسی عرصے میں امریکہ کی توجہ افغانستان کی بجائے عراق پر مرکوز ہو گئی۔

17اپریل، 2002: صدر جارج ڈبلیو بش نے ورجینیا ملٹری انسٹیٹیوٹ سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کی تعمیر نو کا اعلان کیا، جس کے تحت 2001 سے 2009 تک امریکی کانگریس نے افغانستان کو 38 ارب ڈالرز کی امداد دی۔

جون 2002: حامد کرزئی جو کہ افغانستان کی عبوری انتظامیہ کے چیئرمین کے طور پر دسمبر 2002 سے کام کر رہے تھے، انہیں لویہ جرگہ کے ذریعے ملک کی عبوری انتظامیہ کا سربراہ بنایا گیا جس کا انعقاد کابل میں کیا گیا تھا، جس میں افغانستان کے 364 اضلاع سے 1550 نمائندوں نے شرکت کی۔

اس میں 200 خواتین بھی شامل تھیں۔حامد کرزئی پشتون قبیلے درانی کی شاخ پوپلزئی سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ 11 ستمبر کے بعد پاکستان سے افغانستان لوٹے تھے۔ کچھ مبصرین نے حامد کرزئی پر اپنے قبیلے کی طرف داری کا الزام عائد کیا۔ شمالی اتحاد جس میں اکثریت تاجکوں کی تھی وہ وزیراعظم کے نام پر متفق نہ ہو سکے تاہم وہ حکومت میں بہت موثر گروپ کے طور پر موجود رہے۔

نومبر2001: امریکی فوجوں نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے اقوام متحدہ اور این جی اوز کے ساتھ مل کر صوبوں میں کام کا آغاز کیا۔اس مقصد کے لیے پہلے گردیز پھر بامیان،قندوز،مزار شریف اور ہرات میں کام شروع کیا گیا۔ بعد میں اس کی نگرانی کا ذمہ نیٹو نے لے لیا لیکن یہ ماڈل کامیاب نہ ہو سکا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مئی 2003: کابل میں گفتگو کرتے ہوئے امریکہ کے وزیر دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ نے کہا کہ افغانستان میں مشن مکمل ہو گیا ہے اور اب کوئی بڑا خطرہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر بش، سینٹ کام کے سربراہ جنرل ٹومی فرینک اورافغان صدر حامد کرزئی جنگ کے بعد وسیع تر امن مرحلے پر متفق ہوئے ہیں جس کے تحت تعمیر نو کا مرحلہ شروع کیا جائے گا۔ اس وقت تک افغانستان میں صرف آٹھ ہزار امریکی فوجی موجود تھے۔

آٹھ اگست، 2003: افغانستان میں انٹرنیشنل سیکورٹی فورسز (ایساف) کا کنٹرول نیٹو کے پا س تھا۔ یہ یورپ کے باہر نیٹو کی پہلی سرگرمی تھی جس نے پہلے کابل اور اس کے نوح میں سیکورٹی کی ذمہ داری لی، بعد میں نیٹو نے ستمبر 2005،پھر جولائی 2006 اور اکتوبر 2006 میں اپنی سرگرمیوں کو وسعت دی۔

ایساف کے فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ شروع میں 42 ممالک سے پانچ ہزار فوجی تھے جو بڑھ کر 65 ہزار تک پہنچ گئے، جن میں نیٹو کے 28 رکن ممالک بھی شامل تھے۔

جنوری 2004: افغانستان کے 502 اراکین کی اسمبلی افغانستان کے آئین پر متفق ہو گئی جسے جمہوریت کے فروغ کے لیے اہم گردانا گیا۔افغانستان میں امریکہ کے سفیر زلمے خلیل زادہ نے کہا کہ اس سے افغانستان میں قومی انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

نو اکتوبر،2004: حامد کرزئی عام انتخابات میں اکثریت سے صدر منتخب ہو گئے۔انہوں نے 55 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ان کے مقابلے میں یونس قانونی نے 16 فیصد ووٹ لیے۔افغانستان میں 1969 کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ انتخابات ہوئے، اس سے پہلے عام انتخابات ظاہر شاہ کے دور میں ہوئے تھے۔

29 اکتوبر،2004: اسامہ بن لادن کی ایک وڈیو ٹیپ اس وقت سامنے آئی جب افغانستان میں انتخابات کو تین ہفتے ہوئے تھے اور امریکی صدارتی انتخابات ہونے والے تھے۔ یہ ٹیپ الجزیرہ پر چلائی گئی جس میں انہوں نے 11 ستمبر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے آزادی کی جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

23مئی، 2005: امریکی صدر بش اور افغان صدر کرزئی نے امریکہ اور افغانستان کے مابین ایک سٹریٹجیک معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد امریکہ کو افغانستان کی فوجی تنصیبات تک رسائی حاصل ہو گئی اور امریکہ کو افغانستان کی سلامتی کا ضامن قرار دیا گیا معاہدے کی رو سے امریکہ افغانستان کی فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ اس کی معیشت اور سیاسی استحکام کا بھی ضامن ہو گا۔

18ستمبر، 2005: 60 لاکھ سے زائد افغان ووٹروں نے ولوسی جرگہ (کونسل آف پیپلز)مشرانو جرگہ(کونسل آف ایلڈرز)اور مقامی کونسلوں کے لیے ووٹ ڈالے۔ان انتخابات کوافغانستان میں سب سے شفاف انتخابات قرار دیا گیا۔ تقریباً آدھی رائے دہندگان خواتین تھیں۔ ایون زیریں کی249 میں سے 68 سیٹیں جبکہ ایوان بالا کی 102 نشستوں میں سے 23 خواتین کے لیے مخصوص تھیں۔

جولائی 2006: موسم گرما میں ملک بھر میں تشدد کی کارروائیوں میں اضافہ ہو گیا۔ خود کش حملے جن کی تعدا د2005 میں 27 تھی وہ بڑھ کر 2006 میں 139 ہو گئے، جبکہ ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ دیکھا گیا جو بڑھ کر 1677 ہو گئے۔

نومبر2006: نیٹو اراکین افغانستان میں فوجوں کی تعیناتی پر کسی اتفاق ِرائے میں ناکام ہو گئے۔نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے 2008 میں افغانستان کا کنٹرول افغان نیشنل آرمی کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا۔

جب افغانستان میں امدادی کارکنوں پر حملے بڑھے تو نیٹو کے رکن ممالک نے اپنی افواج کے لیے مزید اختیارات کا مطالبہ کیا۔امریکہ کے ڈیفنس سیکرٹری رابرٹ گیٹس نے نیٹو رکن ممالک پر مزید فوج بھیجنے پر زور دیا اور کہا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ’ہماری اب تک حاصل کی گئی کامیابیاں خاک میں مل جائیں گی۔‘

مئی 2007: طالبان کے اہم کمانڈر ملا داداللہ جنوبی افغانستان میں، افغان، امریکہ اور نیٹو کے ایک مشترکہ آپریشن میں ہلاک ہو گئے۔وہ ہلمند میں طالبان فورسز کے کمانڈر تھے۔ایک بار انہوں نے بی بی سی کو دیے گئےانٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے پاس سینکڑوں خود کش بمبار تیار بیٹھے ہیں۔

22اگست، 2008: افغانستان اور اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے ہرات میں امریکہ کے گن شپ ہیلی کاپٹر کے ذریعے درجنوں اموات کی تصدیق کی۔ ا س کے علاوہ صوبہ فرح میں ایسی ہی کارروائی میں140 عام شہری نشانہ بن گئے جس کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل میک کرسٹل نے امریکی فضائی کارروائیوں کے طریقہ کار پر نظر ثانی کی۔

17 فروری، 2009: امریکہ کے نو منتخب صدر باراک اوبامہ نے افغانستان میں 17 ہزار مزید فوجی بھیجنے کا اعلان کر دیا۔ جنوری 2009 تک افغانستان میں 37 ہزار امریکی فوجی موجود تھے۔سیکرٹری ڈیفنس رابرٹ گیٹس نے کہا کہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔

27 مارچ، 2009: صدر اوبامہ نے ایک نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں کامیابی کا دارومدار مستحکم پاکستان پر ہے، ساتھ ہی کہا کہ پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔

اپریل 2009: نیٹو اراکین کی دوروزہ کانفرنس اپریل کے آغاز میں ہوئی جس میں مزید پانچ ہزار فوجی بھیجنے پر اتفاق کیا گیا جو افغانستان میں تعمیر نو کے ساتھ ساتھ افغان فوج اور پولیس کی تربیت بھی کریں گے۔

11 مئی، 2009: سیکرٹری آف ڈیفنس رابرٹ گیٹس نے افغانستان میں جنرل ڈیوڈ میکرنن کی جگہ انسداد دہشت گردی کے ماہر جنرل میک کرسٹل کو ذمہ داری سونپ دی۔

جولائی 2009: امریکہ فوج نے جنوبی افغانستان جن میں ہلمند شامل تھا، میں ایک بڑا آپریشن لانچ کر دیا جس میں چار ہزار فوجیوں نے حصہ لیا۔ آپریشن کا مقصد حکومتی عمل داری میں اضافہ اور طالبان اثرو رسوخ کا خاتمہ تھا۔

نومبر2009: دو ماہ کی غیر یقینی کیفیت کے ساتھ 20 اگست کو صدارتی انتخابات ہوئے جس میں حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی میں مقابلہ ہوا۔انتخابات کی شفافیت سوالیہ نشان بن گئی۔

اقوام متحدہ کے کمیشن نے قرار دیا کہ کرزئی نے 49پوائنٹس اور 67 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ کامیابی کے لیے 50 فیصد ووٹ لینا ضروری ہوتا ہے جس پر کرزئی نے سات نومبر کو دوبارہ الیکشن پر آمادگی ظاہر کر دی لیکن الیکشن سے ایک ہفتہ قبل کرزئی کے مد مقابل عبداللہ عبداللہ دستبردار ہو گئے، جس کی وجہ سے کرزئی کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن نے کرزئی پر نظام حکومت بہتر بنانے اور کرپشن کے خاتمے پر زور دیا۔

یکم دسمبر2009: اوبامہ نے ایک تقریر میں افغانستان میں مزید 30 ہزار فوج بھیجنے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ ہماری فوجیں افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کے بعد جولائی 2011 سے انخلا شروع کر دیں گی۔

23 جون، 2010: جنرل میک کرسٹل کو اختلافات کی بنیاد پر ذمہ داریوں سے سبکدوش کر کے ان کی جگہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو افغانستان میں امریکی فوج کا کمانڈر مقرر کر دیا گیا۔

نومبر2010: لزبن میں ایک کانفرنس میں نیٹو اراکین اس بات پر متفق ہو گئے کہ 2014 کے اختتام تک افغانستان کے امن کی تمام تر ذمہ داری افغان فورسز کے حوالے کر دی جائے گی۔

یکم مئی، 2011: امریکی فوج کے ایک آپریشن میں اسامہ بن لاد ن مارے گئے۔ یہ آپریشن پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں کیا گیا، جس کے بعد حامد کرزئی یہ مطالبہ کرتے رہے کہ افغانستان میں امن کا انحصار سرحدپار دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے پر ہے۔

22جون، 2011: صدر اوبامہ نے اعلان کیا کہ 2012 کے موسم گرما تک 33 ہزار امریکی فوج افغانستان سے واپس آ جائے گی۔ اوبامہ نے تصدیق کی کہ امریکہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں شریک ہے۔

سات اکتوبر،2011: امریکہ کی افغانستان میں جنگ کو دس سال ہو چکے تھے۔ صدر اوبامہ نے 2014 تک تمام امریکی فوج کے انخلا کا اعلان کر دیا۔ 10 سال کی جنگ میں 1800 امریکی فوجی ہلاک ہوئے جبکہ 444 ارب ڈالر اس جنگ کی نذر ہو گئے۔حامد کرزئی نے برہان الدین ربانی جو کہ امن مذاکرات میں حکومت کے نمائندہ تھے ان کی ہلاکت کے بعد مذاکرات معطل کر دیئے اور ان کے قتل کا الزام حقانی نیٹ ورک پر لگایا۔

پانچ دسمبر 2011: جرمنی نے افغانستان کی جنگ کے 10 سال کے بعد وہاں مستقبل کے تعین کے لیے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں درجنوں ممالک شریک ہوئے۔ حامد کرزئی نے کہا کہ افغانستان کو سالانہ 10 ارب ڈالرز امداد کی ضرورت ہو گی۔ تاہم کانفرنس کوئی روڈ میپ دینے میں ناکام رہی۔ پاکستان جو کہ اس تنازع کا اہم فریق تھا اس نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔

مارچ 2012: جنوری میں طالبان نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے قطر میں ایک دفتر قائم کیا تاہم دو ماہ بعد طالبان نے یہ کہہ کر مذاکرات ختم کر دیے کہ امریکہ ایک قیدی کی رہائی کا وعدہ پورا نہیں کر رہا۔ اس دوران امریکی افواج کی طرف سے حادثاتی طور پر قرآن کے جلائے جانے پر فسادات پھوٹ پڑے جس پر حامد کرزئی کو بیان دینا پڑا کہ غیر ملکی افواج کو اڈوں تک محدود کر دیا جائے گا۔

جون 2013: نیٹو افواج نے افغانستان کا کنٹرول افغان فورسز کے سپرد کر دیا اور امریکی فوجوں کا کردار صرف انسداد دہشت گردی کے خصوصی آپریشنز اور افغان فوج کی تربیت تک محدود ہو کر رہ گیا۔اس کے ساتھ ہی امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کا اعلان سامنے آیا۔

27 مئی، 2014: صدر اوبامہ نے افغانستان سے امریکی انخلا کا منصوبہ پیش کر دیا اور کہا کہ 2016 کے اختتام تک زیادہ تر امریکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی۔

21 ستمبر،2014: نئے افغان صدر اشرف غنی حزب مخالف کے رہنما عبداللہ عبداللہ کے ساتھ شراکت اقتدار کے ایک معاہدے پر متفق ہوئے جس کے لیے امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

اشرف غنی عبداللہ عبداللہ کو چیف ایگزیکٹو کا عہدہ دینے پر راضی ہو گئے۔ یہ عہدہ عبداللہ عبداللہ کے لیے تخلیق کیا گیا تھا تاکہ دونوں مل کر افغانستان میں استحکام کے لیے کام کر سکیں۔

13 اپریل، 2017: صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکہ نے ننگرہار میں داعش کے مشتبہ جنگجوؤں کے خلاف سب سے طاقتور بم استعمال کیا۔اسی دوران طالبان کے حملوں میں بھی بہت اضافہ دیکھا گیا، جس کے بعد ہلمند کوایک بار پھر امریکی فوج کے حوالے کر دیا گیا۔

21 اگست، 2017: صدر ٹرمپ نے آرلنگٹن ورجینیا میں فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم افغانستان سے انخلا چاہتے ہیں لیکن دہشت گردوں کو خلا پر کرنے کا موقع نہیں دیں گے، اس لیے انخلا کا انحصار زمینی حقائق پر ہو گا۔

انہوں نے بھارت کو افغانستان میں کردار ادا کرنے کا کہا جبکہ پاکستان پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اب بند ہو چکے ہیں۔

جنوری 2018: طالبان نے کابل میں کئی حملے کیے جن میں 115 سے زائدافراد ہلاک ہو گئے۔یہ حملے ایسے وقت ہوئے جب ٹرمپ اپنے افغان پلان پر عمل کر رہے تھے انہوں نے افغانستان کے دیہات میں فوجی تعینات کیے۔ افغانستان میں ہیروئن کی لیبارٹریوں پر فضائی حملے کیے گئے تاکہ طالبان کو ملنے والے پیسے کو روکا جائے۔ٹرمپ نے پاکستان کی فوجی امداد بھی روک دی۔

فروری 2019: امریکہ اور طالبان کے مابین دوحہ مذاکرات کامیابی کے نزدیک پہنچ گئے۔ان مذاکرات میں امریکہ کی جانب سے زلمے خلیل زاد اور طالبان کی نمائندگی ملا عبدالغنی برادر کر رہے تھے۔

دونوں فریقین میں اتفاق کیا گیا کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد طالبان افغانستان کی سرزمین کو امریکہ کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ طالبان انٹرا افغان ڈائیلاگ میں شریک ہوں گے جو ملک کے سیاسی ڈھانچے اور جنگ بندی سمیت دیگر امور کا فیصلہ کرے گا۔

سات سمتبر، 2019: طالبان کے حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد صدر ٹرمپ نے مذاکرات کا عمل روک دیا اور ایک ٹویٹ میں کہا کہ ان کی کیمپ ڈیوڈ میں افغان صدر اشرف غنی اور طالبان کے درمیان ہونے والی خفیہ ملاقات بھی اب نہیں ہو گی۔ طالبان نے کہا کہ مذاکرات کے تعطل سے تشدد میں اضافہ ہو گا۔

13 فروری، 2020: امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے اعلان کیا کہ مذاکراتی عمل میں بریک تھرو ہو گیا ہے اور طالبان رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ نے ان کے مطالبات تسلیم کر لیے ہیں۔

29 فروری، 2020: قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک تاریخی معاہدے میں دستخط ہونے جا رہے ہیں۔ یہ معاہدہ کتنا نتیجہ خیز ہو گا؟ افغانستان کے زمینی حقائق کے حوالے سے مبصرین خدشات کا اظہار کر رہے ہیں لیکن اس بات کی امید بہرحال ہے کہ افغانستان میں گذشتہ 20 سال سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہو گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا