دوحہ: امریکہ اور افغان طالبان نے امن معاہدے پر دستخط کر دیے

دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدے پر دستخط کر دیے گئے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے زلمے خلیل زاد جبکہ طالبان کی طرف سے ملا عبدالغنی برادر نے دستخط کیے۔

دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدے پر دستخط کر دیے گئے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے زلمے خلیل زاد جبکہ طالبان کی طرف سے ملا عبدالغنی برادر نے دستخط کیے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط کی تقریب دوحہ کے شیریٹن ہوٹل میں ہوئی جہاں 30 ممالک کے وزرا، نمائندے اور یورپی یونین کے ارکان موجود تھے۔

معاہدے کے مطابق امریکہ اور طالبان افغان فریقین کے مابین مذاکرات سے پہلے ہزاروں قیدیوں کا تبادلہ کریں گے۔ افغان فریقین کے مابین امن مذاکرات کا آغاز 10 مارچ سے ہو گا۔

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ چار حصوں پر مشتمل ہے:

  1. ضمانتیں اور ان پر عمل درآمد کا طریقہ کار جو افغان سرزمین کو کسی گروپ یا فرد واحد کی طرف سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کو روکیں گے
  2. ضمانتیں، اس پر عمل درآمد کرنے کا طریقہ کار اور وقت کا اعلان جس کے تحت تمام غیرملکی فوجیں افغانستان سے واپس چلی جائیں گی
  3. عالمی گواہوں کی موجودگی میں غیرملکی فوجوں کی مکمل واپسی اور اس کے نظام الاوقات کے لیے ضمانتوں کے اعلان کے بعد اور عالمی گواہوں کی موجودگی میں یہ ضمانت اور اعلان کہ افغانستان کی سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔ افغانستان کی اسلامی امارت جسے امریکہ ریاست تسلیم نہیں کرتا اور اسے طالبان کے طور پر جانا جاتا ہے 10 مارچ 2020 کو افغان فریقین کے ساتھ بین الافغانی مذاکرات شروع کریں گے۔ ہجری قمری کیلنڈر کے مطابق یہ مذاکرات 15 رجب 1414 ہجری اور ہجری شمسی کیلنڈر کے مطابق 20 حوت 1398 ہجری کو شروع ہوں گے۔
  4. افغان فریقین کے درمیان مذاکرات کے ایجنڈے میں جامع اور مستقل جنگ بندی شامل ہو گی۔ مذاکرات میں شامل فریق مستقل اور جامع جنگ بندی کی تاریخ اور شرائط طے کریں گے۔ ان شرائط میں جنگ بندی پر مشتروط طور پر عمل درآمد کا طریقہ کارشامل ہو گا جس کا اعلان افغانستان کے مستقبل کے سیاسی روڈ میپ کی تکمیل اورمعاہدے کے ساتھ ہی کیا جائے گا۔

دوحہ میں افغانستان میں قیام امن کے لیے تاریخی معاہدے پر دستخط کے موقعے پر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی موجود تھے۔

مائیک پومپیو نے معاہدے پر دستخط سے قبل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان القاعدہ سے تعلقات ختم کرنے کے وعدے کی پاسداری کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر تشدد میں کمی کے معاہدے پر قائم رہیں گے تو کامیابی ہوگی، اگر نہیں رہیں گے تو یہ ناکامی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ سات دنوں کے دوران افغانستان میں پر تشدد واقعات میں کمی دیکھی گئی ہے’اگر ایک ہفتے میں امن برقرار رکھنے کے لیے کوششیں کی جا سکتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ سب امن چاہتے ہیں۔‘

ان کے بعد افغان طالبان کی جانب سے معاہدے پر دستخط کرنے والے ملا عبدالغنی برادر نے خطاب کیا اور کہا کہ کامیاب مذاکرات اور معاہدہ افغانوں اور دنیا کے اچھا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ ’ہم اس معاہدے کی پاسداری کریں گے، ہم سب کے ساتھ مثبت تعلقات چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’افغانستان میں امن کے لیے قطر اور پاکستان کی کوششوں کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔‘

جس ہال میں معاہدے پر دستخط کیے گئے وہاں ایک بڑا سٹیج بنایا گیا تھا جس پر صرف دو نشستیں ہی لگائی گئی تھیں جہاں دونوں جانب سے وہ رہنما بیٹھے جنہوں نے معاہدے پر دستخط کیے۔

سہیل شاہین سے خصوصی بات چیت:

بعد میں انڈپینڈنٹ اردو کو دیے خصوصی انٹرویو میں دوحہ میں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے معاہدے کے حوالے سے بعض لوگوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات پر کہا کہ 20 سالوں میں لوگوں نے یا معاملات خراب کرنے والوں نے بہت شک کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ اس بارے میں جو بھی سوچتے ہوں لیکن ہم نے اس بارے میں صدق دل سے تہیہ کر رکھا ہے اور ہم نے سات دنوں میں تشدد میں کمی کر کے ثابت بھی کر دیا ہے، اور آئندہ مستقبل میں بھی ہم اس کی پاسداری کریں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی بہت ضروری ہے۔ اگر انٹرا افغان مذاکرات چاہتے ہیں تو اس سے پہلے یہ ضروری ہے۔ یہ معاہدے کا حصہ ہے۔

پاکستان کے بارے میں سہیل شاہین نے کہا کہ ’پاکستان نے ہمیشہ اس سارے عمل کی حمایت کی ہے۔ ہم اس کے شکرگزار ہیں۔‘

’پاکستان نے طالبان مہاجرین کو جس طرح سے رکھا اور سہولتیں دی ہیں ہم اس کے لیے بھی ان کے شکرگزار ہیں۔‘

 افعانستان میں موجود پاکستانی طالبان کو حملے کرنے سے روکنے کے پاکستانی مطالبے پر سہیل شاہین نے کہا کہ ’یہ ہمارے کنٹرول والے علاقوں میں نہیں، یہ کابل انتظامیہ کے علاقے میں ہوں گے یہ بات ان سے پوچھی جائے۔ کسی کے خلاف کارروائی کرنےکی ہماری پالیسی نہیں ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا