افغان امن معاہدہ: اب آگے کیا ہو گا؟

بھارت ہر ممکن کوشش کرے گا کہ امن معاہدے پر عمل نہ ہو سکے۔ اب یہ افغان عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن مخالف عناصر کو ناکام بنائیں۔

معاہدے کے بعد اب ایک طرف جہاں طالبان نے پر امن ماحول کو مزید یقینی بنانا ہے، وہیں افغان حکومت نے طالبان کے ساتھ مل کر شراکتِ اقتدار اور جنگ بندی کے اصول طے کرنے ہیں(اے ایف پی)

افغان امن معاہدہ تو ہو گیا ۔اب آگے کیا ہو گاَ؟ یہ معاہدہ کس کی جیت ہے ، کس کی ہار ہے ؟امریکہ نے اس معاہدے سے فائدہ اٹھایا یا نقصان ؟ افغانستان کا مستقبل اب کیا ہو گا؟ کیا یہ معاہدہ برقرار رہ پائے گا؟ کیا یہ معاہدہ واقعی دیر پا ہے ؟ کیا افغان طالبان نے امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا؟ کیا واقعی جنگ بندی دیر پا ہو گی؟ افغان حکومت کی آئندہ شکل کیا ہو گی ؟

معاہدے کی دیر پا کامیابی کے لیے  پاکستان کا آئندہ کردار کیا ہو گا؟ کیا امریکی انتخابات جو اسی سال کے اواخر میں ہوں گے ، ان کے بعد بھی یہ معاہدہ اسی طرح برقرار اور جاری رہ پائے گا؟کیا افغان امن معاہدے سے واقعتاً افغانستان میں امن آ پائے گا؟افغان امن معاہدے کے پاکستان پر کیا اثرات ہو ں گے ؟ کیا افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے

ساتھ ساتھ پاکستان میں بسنے والے لاکھوں افغان مہاجرین بھی واپس اپنے وطن  جا سکیں گے ؟اور سب سے بڑھ کر کیا افغان عوام کا مستقبل اب افغانستان میں محفوظ اور روشن ہو جائے گا؟

ایک سال کم دو دہائیوں سے جاری نام نہاد دہشت گردی کے خلاف مغربی  جنگ میں ایک افغان نسل پیدا ہو گئی ، ایک بوڑھی ہو گئی اورایک ناپید –20 سال پہلے پیداہونے والا افغان بچہ آج نوجوان ہے جس نے اپنی کھیلنے کودنے کی عمر  جنگ زدہ تباہ حال ماحول میں گزاری ۔جسے نہ کھانے کوبھر پور روٹی ملی ، نہ پینے کو صاف پانی ، نہ صحت ملی نہ تعلیم ۔نہ صاف ہو ا ،فضا بھی وہ ملی کہ بارود کی بدبو سے جینامحال ۔

سموگ کے دنوں میں لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 162 تک پہنچ گیا تو لوگوں کے لیے سانس لینا دشوار ہو گیا ۔امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کا ایئر کوالٹی انڈیکس عموماً 30 سے 40 کے درمیان رہتا ہے ۔کئی امریکی ریاستوں میں یہ  اس سے بھی بہتر یعنیٰ کہ 18 تک بھی ہو تا ہے ۔اب اندازہ لگایے کہ کابل کا عمومی ایئر کوالٹی انڈیکس 150سے 165 یا 170 تک رہتا ہے اور یہ سب جنگ ،گولہ بارود اورمٹی کے ڈھیر کی بدولت ہے ۔

ان گذشتہ دو دہائیوں نے جہاں افغانستان کا مستقبل تار تار کر دیا، وہیں پڑوسی ہونے کے ناطے پاکستان نے بھی اس جنگ میں بہت بڑا نقصان اٹھایا ہے۔فرق یہ ضرور ہوا کہ پے درپے زخموں اور  ہزارہا قربانیوں کے بعد آخر کارسات سال پہلے پاکستان نے تذبذب اور غیر یقینی  سوچ سے نکل کر حتمی فیصلہ کر لیا کہ یہ جنگ ہماری نہیں تھی لیکن چونکہ اب مسلط کر دی گئی ہے، سو اسے ہر حال لڑنا اور جیتنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک بار جو پاکستان نے واضح اوریقینی فیصلہ کر لیا تو پھر صرف سات سال کے عرصے میں اپنی سرزمین کو نہ صرف دہشت گردی سے پاک کیا بلکہ آج دنیا کے صفِ اول کے پر امن ممالک میں خود بھی کھڑا ہے اور عالمی امن کے لیے انتہائی کلیدی کردار بھی ادا کر رہاہے ۔1940کی قرارداد ِ پاکستان سے لے کر 1947 کے قیام پاکستان تک کا  عمل بھی سات سال میں مکمل ہو ا اور دہشت گردی کے عفریت سے نجات پانے اورامن کی کوکھ سے نیا جنم لینے کا عمل بھی سات سال میں تکمیل پایا ۔

 دوسری طرف امریکہ جیسی سپر پاور دوکھرب ڈالرز کے ضیاع ، پینتیں سو امریکی اور اتحادی فوجیوں کی جانوں کے نقصان اور دو دہائیوں کی ناکامی کے بعد بھی وہ کامیابی حاصل نہ کر پائی جو پاکستان نے محض سات سال میں حاصل کی ۔یہ  الگ اور واضح بات ہے کہ 70 ہزار معصوم جانوں کی قربانی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی اور ملک نے نہیں پاکستان نے اپنے کندھوں پر اٹھائی ۔

افغان امن معاہدہ فی الحال تو محض  پہلا قدم ہے لیکن ایک ٹھوس اور مضبوط قدم ۔اگلا قدم اب افغان طالبان اور افغان حکومت نے مل کر اٹھانا ہے۔ سنیچر کو جب دوحہ میں مائیک پومیو، ملاعبدالغنی برادر کے ساتھ مل کر شیرٹن ہوٹل میں تاریخی افغان امن معاہدے پر دستخط کر رہے تھے توامریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کابل میں افغان حکومت کے ساتھ ایک الگ معاہدہ دستخط کر رہے تھے ۔

یہ بات بھی قابلِ ذہن نشین ہے کہ اسی وقت وہیں کابل میں بھارتی سیکرٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا بھی موجود تھے، جنہوں نے نہ صرف افغان صدر اشرف غنی بلکہ اعلیٰ افغان حکام سے ملاقات بھی کی ۔دوسری طرف دوحہ میں بھی تاریخی افغان امن معاہدے کے دستخط کی تقریب میں قطر میں بھارتی سفیر پی کمارن موجود تھے ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ 1999کی قندھار ہائی جیکنگ کے بعد بھارت نے سرکاری طور پر طالبان کے ساتھ کسی بیٹھک میں شرکت کی ہو ۔

اس واقعے کے بعد سے بھارت نے طالبان کی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔یادر ہے کہ 1999 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت موجود تھی ۔دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ اُس وقت بھی بھارت میں بی جے پی کی حکومت تھی اور آج بھی بی جے پی کی حکومت ہے ۔1999میں قندھار ہائی جیکنگ کے  وقت اجیت دوول بھارتی انٹیلی جنس بیورو(آئی بی ) کے سربراہ تھے اور آج بھارت کے  قومی سلامتی کے مشیر  ہیں ۔ انہی لوگوں کی حکومت میں بھارت نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور آج 2020میں انہی لوگوں کی حکومت نے نہ صرف طالبان کو حقیقت تسلیم کیا بلکہ اس امن معاہدے کی توثیق کی ۔

تقریب میں سرکاری شرکت ہوئی جس میں طالبان کے ساتھ شراکت ِاقتدار کے فارمولے کی بنیا د کو تسلیم کیاگیا ۔یہ پاکستان کی خطے میں بالخصوص اور عالمی منظر نامے میں بالعموم بھارت کے مخالف بڑی سٹرٹیجک کامیابی ہے کہ وہ بھارت جو کل تک افغان حکومت کے علاوہ افغانستان میں کسی کو براہِ راست فریق نہیں مانتا تھا، وہی بھارت محض پاکستان کی کامیاب اور بہترین افغان پالیسی کی بدولت اپنی پالیسی سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو ۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے اور حالیہ دورہِ  بھارت  میں وزیراعظم نریندر مودی نے خود ان سے التجا کی کہ افغان امن معاہدے کی دستخط تقریب میں چونکہ پاکستان کلید ی کردار رکھنے کی بدولت شامل ہے ،لہٰذا بھارت کو بھی دعوت دی جائے ۔ تاریخی افغان امن معاہدے کو پورے بھارت میں بھارتی خارجہ پالیسی اور سٹرٹیجک وژن کی ناکامی اور پاکستان کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے ۔

بھارت کو یہ برداشت نہ ہوگا  کہ پاکستان اپنی مغربی سرحد کو نہ صرف محفوظ بنالے بلکہ اپنے اندرونی علاقائی  امن و سلامتی کو مزید بناتے ہوئے خطے کی سیاست اور سٹرٹیجک پلاننگ میں اولین کردار اختیار کر لے ۔افغانستان کے ذریعے علاقے اور خطے میں اپنا ناجائز تسلط قائم کرنے کے لیے اپنے ڈرٹی گیم کی خاطر بھارت تقریباً تین ارب ڈالرز افغانستان میں خرچ کر چکا ہے ۔

بھارت ہر گز یہ برداشت نہیں کرے گاکہ پاکستان کی موثر ،مضبوط اور پر امن افغان پالیسی کی وجہ سے اُس کی یہ’سرمایہ کاری‘  ڈوب جائے ۔اسی لیے بھارت ہر ممکن کوشش اور سازش کرے گا کہ تاریخی افغان امن معاہدہ آگے نہ بڑھ پائے اور اس پر عمل ناکام ہو ۔ اب یہ افغان عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن منافی اور امن مخالف کسی بھی قسم کے عناصر کو ناکام بنائیں۔ دوحہ میں ہونے والے دستخط پہلا قدم ہیں۔ دوسرا اور اگلا قدم افغان عوام، افغان حکومت اور افغان طالبان کو مل کر اٹھانا ہے ۔

کابل میں افغان حکومت کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع خبردار کر چکے ہیں  کہ اگر طالبان نے اپنے عہد کو پورا نہ کیا تو امریکہ یہ معاہدہ ختم کرنے میں ہچکچائے گا نہیں ۔ اس معاہدے پر دستخط سے پہلے ایک ہفتے تک بطورٹرائل ’ریڈیکشن اِن وائلنس ‘ (جنگ میں کمی )کا طریقہ اپنایا گیا جو کامیاب رہا تھا ۔ ان سات دنوں میں افغانستان میں پر تشدد واقعات میں 80فیصد کمی آئی تھی ۔

معاہدے کے بعد اب ایک طرف جہاں طالبان نے پر امن ماحول کو مزید یقینی بنانا ہے، وہیں افغان حکومت نے طالبان کے ساتھ مل کر شراکتِ اقتدار اور جنگ بندی کے اصول طے کرنے ہیں۔

جون ،جولائی تک امریکہ افغانستان میں موجود 12ہزار میں سے پانچ ہزار فوجی پہلے مرحلے میں واپس بلالے گا۔ یہ  ٹرمپ  کےلیے  انتخابی مہم کی بہت بڑی کامیابی ہو گی ۔ تمام تر نشیب و فراز ، ٹو ٹتے جڑتے ، اونچے نیچے حالات کے باوجود جس طرح پاکستان نے یقینی بنایا کہ افغان امن معاہدہ حتمی مرحلے تک پہنچے، وہیں اس معاہدے کے آئندہ مراحل میں بھی پاکستان کی سپورٹ انتہائی کلیدی ہو گی ۔

خاص طور پر  اس خطے میں موجود مخالف سپوائلرز کی ذہنیت اور چالوں کو پاکستان سے بہتر تو  نہ کوئی سمجھ سکتا ہے اور نہ ان کا توڑ پاکستان سے بہتر کسی کے ہاتھ میں ہے ۔ تاریخی افغان امن معاہدہ کامیاب ہو، یہی سب کی جیت ہے ۔ یہی امن کی جیت ہے،یہی دنیا کی جیت ہے، یہی افغان عوام کی جیت اور کامیا بی ہے ۔

اقبال نے کہا تھا:

آسیا یک پیکرآب و گل است

ملت افغان درآن پیکر دل است

ازفساداو، فساد آسیا

ازکشاد او، کشاد آسیا

ایشیا ایک مٹی اور پانی کا مجسمہ ہے ۔افغانستان اس مجسمے کا دل ہے ۔ افغانستان کا فساد پورے ایشیا کا فساد ہے اور افغانستان کا امن پورے ایشیا کا امن ہے ۔

افغان باقی ! کہسار باقی !

الحکم للہ، الملک للہ!

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر