کرونا ہم تمہیں ماریں گے

کرونا وائرس نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ ہم ذہنی تخلیق کے ساتھ ساتھ ہوائی تحقیق میں بھی یکتا ہیں۔

پیاز کی ڈلیوں سے لے کر دھوپ کی تمازش تک، ہم نے اس خوف ناک وائرس کے ایسے درجنوں ٹوٹکے پا لیے ہیں جو دوسری اقوام سر توڑ کوششں کرنے کے باوجود حاصل نہیں کر پائیں(اے ایف پی)

کرونا وائرس کیا آیا ہماری چھپی ہوئی صلاحیتیں دوبارہ سے اجاگر ہو گئیں۔ ہمیں پھر سے پتہ چلا کہ ہم زندہ قوم ہوتے ہوئے بھی اس وقت تک سونے کے عادی ہیں جب تک کوئی مسئلہ بحران میں تبدیل ہو کر ہمارے سر پر ایک دھماکے سے پھٹ نہ جائے۔

جب دنیا چین کے اندر سے اٹھنے والی اس وبا کے پیش نظر قومی احتیاطی تدابیر لاگو کرنے کی کوشش میں مصروف تھی تو ہم اس وقت نواز شریف کے آنے یا نہ آنے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹانے جیسے معاملات میں توانائیاں صرف کر رہے تھے۔

ہم نے وائرس کو چین میں موجود اپنے شہری اور بچوں تک محدود کیا اور پھر ان کو وہاں پر محصور کرنے کی پالیسی بنا کر ایسے خوش ہوئے کہ جیسے اس مسئلے کا تدارک ہو گیا۔ لہٰذا اب جب اس وبا کے شواہد ہمسایہ ممالک سمیت اپنے گھر سے نکلنے لگے ہیں تو سینیٹ کے اندر سے قومی حفاظتی پلان بنانے کی باتیں سنی جا رہی ہیں۔

ہمیں یقین ہے کہ اگر کرونا وائرس کے دو کیسز کی خبر سوشل میڈیا کے ذریعے نہ پھیلی ہوتی تو ہمارے نمائندگان مثبت رپورٹنگ کے ذریعے ابھی بھی یہ اصرار کر رہے ہوتے کہ ہم چوں کہ قدرت کی خاص اقوام میں سے ہیں لہٰذا ہمیں پریشانی کی ضرورت نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرونا وائرس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ ہم ذہنی تخلیق کے ساتھ ساتھ ہوائی تحقیق میں بھی یکتا ہیں۔ پیاز سے لے کر دھوپ کی تمازت تک ہم نے اس خوف ناک وائرس کے ایسے درجنوں ٹوٹکے پا لیے ہیں جو دوسری اقوام سر توڑ کوششں کرنے کے باوجود حاصل نہیں کر پائیں۔ اگر امریکہ کی سٹاک مارکیٹ سمیت دنیا کے دوسرے سرمایہ کار ہماری تحقیق پر نظر رکھتے تو پانچ کھرب ڈالروں کا نقصان کرنے کی بجائے تھوڑا سا انتظار کرنے کو ترجیح دیتے۔ جب ہماری ایجاد کردہ دوائیاں اس وبا کو نیست و نابود کر دیتیں۔

ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ وائرس دھوپ نکلنے پر غائب ہو جائے گا۔ اب یہ اور بات ہے کہ موسم نے مزید بارشوں کی طرف کروٹ لے لی ہے اور اپریل کے دوسرے ہفتے تک نیم گرمی، نیم سردی چلتی رہے گی، لہٰذا اس وجہ سے ہم کرونا وائرس کی موسم گرما میں موت کے بارے میں حتمی انداز سے کچھ نہیں کہہ سکتے مگر پھر بھی اتنا یقین رکھتے ہیں کہ کچھ ایسا ضرور ہو جائے گا۔

واضح رہے کہ اس یقین کی سائنسی بنیاد کا ہونا ضروری نہیں۔ ہمارا زندگی گزارنے کا اپنا انداز ہے جس میں سائنس کا عمل دخل کم اور موسموں کا زیادہ ہے۔ ہم ہر بحران کا حل بذریعہ موسم تلاش کرتے ہیں۔ سیلاب کے دنوں میں برسات کے خاتمے کی دعا، خشک سالی میں بارشوں کا انتظار، ڈینگی کے تین مہینوں میں اس سے اگلے تین مہینوں پر تکیہ، الرجی کے موسم میں پولن کے اختتامی ہفتے، ہم یہ سب کچھ ایک موسمی فارمولے کے تحت کرتے ہیں۔

اب تو معاشی بیچارگی اور سیاسی افراتفری کا بھی کیلنڈر بن گیا ہے۔ ایک سال میں یہ، دو سال میں وہ اور تین سال بعد۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ خارجہ اور دفاع پر ماہ و سال کی مہر لگا کر کامیابی کا انتظار ہے۔ جب مودی گرے گا تب کشمیر آزاد ہو گا۔ جب امریکی جائیں گے تب افغانستان میں امن پائیں گے۔ جب ایف اے ٹی ایف کا اگلا اجلاس ہو گا تب خوش خبری آئے گی۔

جب ایسے اہم معاملات دن و رات کے اوقات کے ہاتھ میں دیے ہوئے ہیں تو کرونا وائرس کے حدت کے ذریعے مرنے کا مفروضہ کیوں نہ بنائیں؟ دنیا ہم سے سبق لے سکتی ہے، مگر چوں کہ وہ ہر وقت ہمارے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف رہتی ہے لہٰذا یہ دنیا مٹ جائے گی مگر ہم سے کچھ نہیں سیکھے گی۔

کرونا وائرس نے ہماری امانت، دیانت، خدا ترسی اور عوام پروری کو بھی خوب آشکار کیا ہے۔ اِدھر بیمار مریضوں کی خبر نکلی اُدھر مارکیٹوں میں پائے جانے والے ماسک غائب ہو گئے، جو موجود تھے ان کی قیمتیں ٹماٹر ہو گئیں۔ 10 روپے کا 100اور 100والا 400 روپے میں۔

اس نفسا نفسی کے عالم میں جناب صدر عارف علوی کا جذبہ انسانی ابلنے لگا۔ انہوں نے قوم کو ٹشو پیپر سے ماسک بنانے کا طریقہ بتاتے ہوئے نہ گھبرانے کی تلقین کی۔ وہ اس سے پہلے قوم کو دانت صاف کرنے کی قیمتی تراکیب سے مستفید کروا چکے ہیں۔ جب ایسا صدر ہو تو کرونا یا میڈونا ہر قسم کا حملہ شکست فاش سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔

مگر ابھی کسی نے مجھے بتایا کہ صدر علوی کی اس کار آمد تجویز کے بعد مارکیٹ میں ٹشو پیپر کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ اب ہم منتظر ہیں کہ جناب صدر عام استعمال کی کس اور چیز کو منہ پر چڑھانے کی ترکیب جاری کریں گے تاکہ کرونا سے بچا جا سکے۔

مگر جس طرح مارکیٹ میں منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم کیا گیا ہے اس سے ہمیں اپنے انتظامی نظام کی ان خصوصیات کا بھی علم بخوبی ہوا، جن کی موجودگی کے باوجود حکومت دوسری اجناس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے والے مافیاز کو گرفت میں لانا چاتی ہے۔ جو ماسک چھپانے والوں کی گردن نہیں ناپ سکتے وہ کھرب پتی منافع خوروں کا ہاتھ کیسے روکیں گے؟ مگر پھر کرشمہ سازی اللہ  کے نیک بندوں کی قسمت میں لکھ دی گئی ہے، کرونا وائرس کی طرح ملک پر قابض مافیاز بھی نہیں بچیں گے۔ یہی وہ مفروضہ ہے جس کی بنیاد پر یہ تمام نظام ابھی تک چل رہا ہے۔

کرونا وائرس نے یہ بھی ثابت کیا کہ ہم بہادر اور جری مزاج بھی ہیں۔ ایک وائرس سے ڈر کے بڑی بڑی اقوام گھبرائی پھر رہی ہیں۔ جاپان، سنگاپور، ساؤتھ کوریا، امریکہ، یورپ سب پریشان ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارا دیرینہ دوست چین بھی غیر ضروری طور پر مضطرب ہے۔ کہیں قومی ایمرجنسی لاگو کر دی گئی ہے، کہیں سیاحت اور تعلیم کے مراکز پر تالا بندی کر دی گئی ہے، کہیں پروازیں ختم ہیں اور کہیں بین الاقوامی کاروبار۔

جاپان میں ہونے والے اولمپکس پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ حتی کہ حج اور عمرہ جیسے مقدس مذہبی عبادت و فرائض کے لیے اکٹھا ہونے کے معاملات بھی ایک چیلنج بن گئے ہیں۔ مگر ہمیں دیکھیں۔ کمال تمانت اور اعتماد کے ساتھ کچھ کیے بغیر کام چلا رہے ہیں۔ 

ہم نے اس وائرس کو ’لفٹ‘ نہ کروا کر ثابت کیا ہے کہ ہمارا نظام ان تمام ممالک سے کہیں زیاد ٹھوس اور بااعتماد ہے جو دنیا بھر میں اپنی معاشی اور مادی ترقی کی بنیاد پر اتراتے پھرتے ہیں۔ ہم نے تو اس وائرس کو اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ اس کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کا کوئی اجلاس ہو یا کابینہ، کوئی خصوصی نشست کا بندوبست کرے یا مریم اورنگزیب یا شیری رحمان کہیں کھڑے ہو کر دوچار لفظ ہی بول دیں۔

ہم نے تو صوبائی بلکہ ضلعی سطح پر بھی اس وائرس کو عدم توجہ کی مار ماری ہے۔ ایک آدھ بیان جاری کر کے کرونا کو اس کی اوقات یاد کروائی ہے۔ ہماری سٹاک مارکیٹ میں غیر معمولی مندی کا رجحان بھی وقتی ہے۔ کیا ہوا کہ تین سال میں سب سے زیادہ گراوٹ پچھلے جمعے دیکھی گئی یا 15ماہ کے بعد بیرونی سرماریہ کاروں نے سب سے زیادہ حصص فروخت کیے، جو گئے ہیں وہ واپس آ جائیں گے۔

اگر سرمایہ کاروں کے 436ارب روپے ڈوبے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ کاروبار میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے اور یہ بھی کیا طریقہ ہے کہ جب پیسے بنائیں تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دیں اور جب نقصان ہو تو بیچ سڑک بین ڈالنے لگیں۔ کرونا آج ہے کل نہیں ہو گا۔ یہ ہمارا اعتماد ہے۔ دنیا میں اس نے تباہی پھیلائی ہے۔ ہمیں کچھ نہیں ہو گا۔ یہ ہمارا یقین ہے۔

اس وبائی بحران میں پاکستانی قوم کو ہاتھ دھونے والا صابن، ماسک، دستانے، دوائیاں وغیرہ تو نہیں ملیں مگر تسلی کی کوئی کمی نہیں ہو گی، وہ ہر جگہ دستیاب ہے لہذا ماسک نہ مانگیں، تسلی پر گزارا کریں۔ کرونا جیسے آیا ہے ویسے چلا بھی جائے گا۔ اس ملک میں ہر قسم کا وائرس ایسے ہی آتا ہے اور ایسے ہی جاتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر