بین الافغان مذاکرات کی میزبانی پاکستان بھی کرنا چاہتا ہے: ستانکزئی

امریکہ سے معاہدے کرنے والے افغان طالبان کے چیف مذاکرات کار شیر محمد عباس ستانکزئی کا کہنا ہے کہ دوحہ سمجھوتے پر عمل درآمد میں اگر کوئی مسئلہ درپیش آیا تو اسے دور کرنے لیے فریقین کے مابین ’ہاٹ لائن‘ موجود ہے۔

امریکہ کے ساتھ کامیاب مذاکرات کرنے والے چیف افغان مصالحت کار شیر محمد عباس ستانکزئی کو امید ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے بعد بین الافغان بات چیت کا آغاز 10 مارچ سے ہو جائے گا۔ 

29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے مابین ایک تاریخی معاہدہ ہوا، جس کے بعد یہ امید کی جارہی ہے کہ اس سے گذشتہ کئی برسوں سے شورش کے شکار ملک افغانستان میں امن کی راہیں کھلیں گی۔

 اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ نہ صرف امریکہ مئی 2021 تک اپنی فوجوں کا انخلا کرے گا بلکہ امریکہ اور طالبان، افغان فریقین کے مابین مذاکرات سے پہلے ہزاروں قیدیوں کا تبادلہ کریں گے۔ اس مقصد کے لیے افغان حکومت کا ایک چھ رکنی وفد دوحہ میں موجود ہے اور اس کے طالبان کے ساتھ رابطوں کی بھی اطلاعات ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے دوحہ میں شیر محمد عباس ستانکزئی سے اس معاہدے سے جڑے کچھ سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی۔

انڈپینڈنٹ اردو: غیر ملکی افواج کے افغانستان سے نکلنے کا ٹائم ٹیبل طے ہو گیا ہے تو کیا طالبان کی جدوجہد، جسے وہ جہاد کہتے ہیں، ختم ہو جائے گا؟

شیر محمد عباس ستانکزئی: کوئی شک نہیں کہ جب غیر ملکی افواج افغانستان چھوڑ دیں گی۔ باہر نکل جائیں گی۔ دوبارہ ہمارے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیں گی۔ جہاد ختم ہو جائے گا۔ ہم افغانستان میں پرامن زندگی جیئیں گے۔

افغان حکومت یا افغانوں کے ساتھ 10 مارچ کو مذاکرات شروع ہو جائیں گے یا تاخیر کا امکان ہے؟

امریکی قبضے کے خلاف اس جنگ میں ساری قوم ہمارے ساتھ تھی۔ انہوں نے ہماری حمایت کی۔ قوم کی حمایت کے بغیر ہم یہ جنگ 20 سال تک نہ لڑ پاتے۔ اب کابل میں موجود چند سیاسی جماعتیں کابل کی انتظامیہ سمیت جسے ہم قانونی حکومت کے طور پر نہیں مانتے کے ساتھ 10 مارچ کو یقیناً ہم بات چیت شروع کریں گے۔ ہم ان تمام بین الاقوامی معاملات پر مذاکرات کریں گے جن کا تعلق ہمارے ملک سے ہے۔

قیدیوں کی فہرستوں پر کوئی بات ہوئی؟ فہرستیں تیار ہیں یا ابھی تیار ہونی ہیں؟

امن معاہدے میں بلاشبہ لکھا ہوا ہے کہ 10 مارچ کے بین الافغان ڈائیلاگ سے پہلے ان کی طرف سے پانچ ہزار قیدی رہا ہونے چاہییں۔ ایک ہزار قیدی ہماری طرف سے رہا کیے جائیں گے۔ جب یہ عمل مکمل ہو جائے گا، تب بین الافغان ڈائیلاگ شروع ہو گا۔

صدر غنی نے کہا ہے کہ کوئی قیدی رہا نہیں ہوں گے یا ارادہ نہیں ہے۔ اسے آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

غنی صاحب بارہا ایک ہی بات کر رہے ہیں لیکن دراصل غنی کسی کی نمائندگی نہیں کرتے۔ وہ آج کل قانونی صدر نہیں ہیں۔ اس پر بھی تنازعہ ہے۔ فی الحال وہ صرف اپنی طرف سے بول رہے ہیں۔ افغانستان میں اس وقت تین صدور ہیں۔

مجھے نہیں پتہ کہ کون کرے گا؟ امریکی ان قیدیوں کو رہا کریں گے، انہوں نے ہم سے وعدہ کیا ہے۔ ہمیں یہ قیدی امریکہ سے چاہییں نہ کہ کابل کی انتظامیہ سے۔

امریکی کہہ رہے ہیں کہ وہ افغان حکومت کے پاس ہیں؟

اپنی طرف سے وہ کچھ بھی کہیں۔ ہم افغان حکومت کو نہیں مانتے۔ افغان حکومت کٹھ پتلی ہے۔ انہیں وہی کرنا ہو گا جو امریکہ کہے گا۔

10 مارچ کے مذاکرات کہاں ہوں گے؟ کوئی بات چیت شروع ہوئی؟ ایجنڈا سیٹ ہوا؟

ہم نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا لیکن ہمارے پاس بہت سے آپشنز ہیں۔ دسیوں ممالک خصوصاً ہمارے ہمسائے، یورپی اور ایشیائی ممالک، مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بین الافغان ڈائیلاگ کی میزبانی کی درخواست کر رہے ہیں۔ البتہ ہم نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا کہ یہ کہاں پر منعقد کیے جائیں گے۔ یہ فیصلہ صرف ہمارا نہیں ہو گا۔ دوسرے فریق کو بھی متفق ہونا ہے۔ امید ہے کہ مشترکہ فیصلہ ہو گا کیونکہ یہ تمام ممالک ہمارے دوست ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مذاکرات ایک ہی راؤنڈ میں مکمل نہیں ہو جائیں گے۔ بہت سے راؤنڈز ہوں گے۔ ہم مختلف مقامات پر مذاکرات کو منعقد کر سکتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو: کیا پاکستان نے بھی میزبانی کی کوئی خواہش ظاہر کی؟

شیر محمد عباس ستانکزئی: پاکستان بھی ان میں سے ایک ہے۔ وہ بھی یہی چاہتے ہیں۔ ہم پاکستان میں بھی ایک راؤنڈ کریں گے۔

الزام رہا ہے کہ طالبان کی لیڈرشپ پاکستان میں رہتی ہے۔ وہیں سے انہیں حمایت ملتی ہے۔ اب کیا یہ حمایت ختم ہو گی اور طالبان افغانستان واپس چلے جائیں گے؟

یہ صرف الزام تراشی ہے۔ کابل کی انتظامیہ ہمیشہ طالبان پر الزام تراشی ہی کرتی ہے کہ انہیں پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ یہ سچ نہیں ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان انسدادِ دہشت گردی کے اتحاد میں بھی شامل ہے۔ دوسرا یہ کہ امریکی اور نیٹو افواج کا سپلائی روٹ بھی پاکستان سے ہے۔ گذشتہ 20 سالوں میں پاکستانی حکومت نے  ہمارے سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا، وہ پاکستان کی جیلوں میں ہیں۔ یہ سچ نہیں ہے کہ پاکستان ہماری حمایت کر رہا ہے۔ ہاں پاکستان میں ہمارے مہاجرین اور پناہ گزین موجود ہیں۔ وہ اب سے نہیں بلکہ گذشتہ 40 سالوں سے پاکستان میں ہیں۔ یہ پاکستان کے کندھوں پر بھی بوجھ ہے۔ ہمیں اس کا احساس ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ طالبان کی سپورٹ کر رہے ہیں۔

طالبان لیڈر، طالبان کے لوگ، طالبان کے عسکری لوگ وہ سب افغانستان کے اندر ہیں۔ وہ وہیں سے لڑ رہے ہیں۔ ہمارے رہنما ملا محمد عمر افغانستان میں ہی رہے، وہ کبھی افغانستان سے نہیں نکلے اور افغانستان میں ہی وفات پائی۔

خواتین کے حقوق اور خواتین کو کام کرنے کی اجازت کے لیے طالبان لچک دکھائیں گے یا پہلے جیسا سخت موقف رہے گا؟

دیکھیے، اسلام کی رُو سے خواتین کو پورے حقوق حاصل ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ تعلیم کے حقوق، ملازمت کے حقوق اور پارلیمان میں جانے کے حقوق، منتخب ہونے یا کیے جانے کے حقوق اسلام نے خواتین کو دیے ہیں۔ افغانستان کا 99.9 فیصد معاشرہ مسلمان ہے۔ وہ اسلام پر یقین رکھتے ہیں۔ اسلامی اصولوں اور افغان روایات کے مطابق ہم وہ سب کریں گے۔

پہلے خواتین کے پردے اور اس پر عمل درآمد کی بہت سختی تھی۔ اگر آپ حکومت میں آتے ہیں تو اب بھی سختی رہے گی؟

آپ دیکھیے کہ نوے کی دہائی میں افغانستان کے اندر خانہ جنگی تھی۔ دس سے پندرہ فریقین آپس میں لڑ رہے تھے۔ کوئی سکیورٹی نہیں تھی۔جس ملک میں مردوں کی سکیورٹی نہیں تھی، وہاں عورتوں کی سکیورٹی کس طرح ہوتی؟ عورتوں کو چھوڑیں اس وقت تو مردوں کے لیے بھی کوئی سکول، یونیورسٹی یا سہولتیں نہیں تھیں۔ دیگر ملکوں کی طرح خواتین کا باہر گھومنا پھرنا افغانستان میں وار لارڈز اور حالات کی وجہ سے مشکل تھا۔ صورت حال ہی ایسی تھی۔

اب جبکہ امریکی افواج افغانستان سے چلی جائیں گی۔ افغانستان میں امن قائم ہو جاتا ہے، تمام جماعتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں اور ایسی حکومت بناتی ہیں جو افغانوں کی اکثریت کو قبول ہو تو میرے خیال میں پھر کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ تب خواتین امن کے ساتھ رہ سکتی ہیں، سکول جا سکتی ہیں، یونیورسٹی جا سکتی ہیں، اپنے دفاتر جا سکتی ہیں۔

القاعدہ یا داعش قسم کے گروپوں پر نظر رکھنے کے لیے کیا نظام ہے کہ وہ طالبان کے علاقوں یا افغانستان میں نہ آئیں۔ اگر ان گروپوں کو افغانستان میں دیکھا گیا تو آپ یا امریکی ان کے پیچھے جائیں گے؟

آپ کے علم میں ہے کہ سلامتی کے لیے ہر ملک کے اپنے قواعد ہوتے ہیں۔ سلامتی کے معاملے میں جہاں تک افغانستان کے قواعد و ضوابط کا تعلق ہے بیرون ملک سے افغانستان آنے والے تمام افراد چاہے وہ سیاح ہوں یا ان کے پاس رہائش کا اجازت نامہ ہو یا وہ کاروباری مقاصد کے لیے آئیں، بیرون ملک افغانستان کے سفارت خانے انہیں ویزے جاری کریں گے۔ غیرملکیوں کو صرف اس صورت میں افغانستان آنے دیا جائے گا جب ان کے مقاصد پرامن ہوں گے اور وہ افغانستان کی ترقی کے لیے آئیں گے۔ افغانستان کی سزمین استعمال کرنے کے لیے آنے والوں کو ویزہ نہیں دیا جائے گا۔ ایسے عناصر کو افغانستان میں داخل ہونے کا موقع مل بھی گیا اوردیکھ لیے جانے کی صورت میں ہم انہیں روکیں گے۔

آپ افغانستان میں امریکہ کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان میں کام کریں یا آپ ان سے رابطہ مکمل ختم کرنا چاہتے ہیں یا وہ کسی اور شکل میں واپس آئیں گے، کیا ہوگا؟

امن معاہدہ واضح ہے۔ تمام غیرملکی فورسز کو افغانستان سے جانا ہو گا البتہ امریکہ اور دوسرے ملکوں کے سفارتی مشن افغانستان میں موجود رہیں گے۔ ہم مغربی ممالک خاص طور امریکہ سے اچھے اور دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک اپنی فوجیں نکالنے کے بعد افغانستان کی تعمیر نو اور بحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔ وہ تعلیم، صحت اور دوسرے شعبوں میں کام کریں اور ہماری مدد کریں۔

گذشتہ روز آپ نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات کی ہے۔ کیا چند روز میں امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی شروع ہو جائے گی؟ کیا ایسا ہی ہے؟

ہاں، معاہدے کے مطابق انہیں واپس جانا چاہیے اور اپنی فورسز نکالنا شروع کونا چاہیے۔ وہ زمین راستے سے واپس جائیں یا فضائی راستے ہم معاہدے کے مطابق انہیں محفوظ راستہ فراہم کریں گے۔

امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ امن اور مصالحت کے عمل میں کردار ادا کرنے والے طالبان رہنماؤں سے ذاتی طور پر ملاقات کریں گے۔ کیا آپ امریکہ جانا چاہیں گے اور وہاں جا کر کیسا محسوس کریں گے؟

مجھے بھی اس بارے میں میڈیا سے ہی پتہ چلا ہے۔ ابھی تک اس حوالے سے معاملہ واضح نہیں ہے اور نہ ہی سرکاری طور پر کوئی اطلاع دی گئی ہے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے دوران ایسے کئی مواقعے آئے جب مکمل طور پر تعطل پیدا ہو گیا۔ وہ کون سے نکات سے جو معاہدے کے راستے میں رکاوٹ بنے؟

نہیں نہیں۔ مذاکرات ختم ہو چکے ہیں۔ معاہدے پر دستخط کر دیئے گئے۔ معاملہ واضح ہے۔ اب عملی مرحلہ آ گیا ہے۔ امریکیوں کو معاہدے پر عمل کرنا چاہیے اور ہم اپنے وعدوں پر قائم ہیں لیکن ایسے چینل موجود ہیں جسے آپ ’ہاٹ لائن‘ کہہ سکتے ہیں۔ یہ ہمارے پاس بھی ہے اور امریکیوں کے پاس بھی۔ کوئی مسئلہ سامنے آنے کی صورت میں یہ چینل استعمال کیا جائے گا۔

شیر محمد عباس ستانکزئی کون ہیں

ستاون سالہ شیر محمد ستانکزئی کو نومبر 2015 میں طالبان نے افغان طالبان نے قطر میں اپنے سیاسی دفتر کا نیا سربراہ مقرر کیا تھا۔ یہ تقرری اس وقت اسلامی تحریک کے سربراہ ملا اختر منصور نے کی تھی۔ اس سے قبل اسی سال اگست میں ہی میر ملا اختر منصور نے شیر محمد عباس ستانکزئی کوسیاسی دفتر کا عارضی سربراہ مقرر کیا تھا۔

ان کا تعلق افغانستان کے صوبے لوگر سے ہے۔ ستانکزئی نے کالج تک تعلیم افغانستان سے حاصل کی تاہم ستر کی دہائی میں وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے سکالرشپ پر انڈیا گئے جہاں سے انہوں نے ملٹری سکول سے ڈگری حاصل کی۔

افغانستان میں جب روس کے خلاف جدوجہد کا آغاز ہوا تو وہ پشاور آگئے اور یہاں کئی سال تک جلوزئی کیمپ میں مقیم رہے۔ وہ سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کی جماعت جمعیت اسلامی کا حصہ بھی رہے تاہم بعد میں وہ عبدالرب رسول سیاف کی جماعت اتحاد اسلامی میں شامل ہوئے۔

نوئے کی دہائی میں جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے طالبان تحریک میں شمولیت اختیار کر لی اور حکومت میں ڈپٹی وزیر خارجہ سمیت اہم عہدوں پر فائز رہے۔

انہیں انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ 2011 سے قطر میں امریکہ کے ساتھ سیاسی گفتگو میں شریک رہے۔ اس کی تصدیق سٹیو کول نے اپنی کتاب ’ڈائریکٹریٹ ایس‘ میں کیا ہے جس کے بقول وہ اس وقت کے طالبان کے چیف مذاکرات کار طیب آغا کے ہمراہ اکثر امریکیوں کے ساتھ بات چیت میں شریک رہتے تھے۔

مکمل انٹرویو دیکھنے کے لیے کلک کیجیے

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا