’مردوں کو کب سکھایا جائے گا کہ وہ خواتین کے ساتھ کیسے پیش آئیں؟‘

خواتین صحافیوں کو ہمیشہ وہ خبریں اور سٹوریز دی جاتی ہیں جو اتنی اہم نہیں ہوتیں۔ ایسا بھی سمجھا جاتا ہے کہ شاید وہ مردوں سے اچھا کام نہیں کر سکتیں۔

 نیوز روم کسی بھی اخبار یا ٹی وی کی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں بیٹھ کر خبریں بنائی جاتی ہیں اور مرو و خواتین صحافی وہاں بیٹھ کر اپنا کام کرتے ہیں۔

 اس کمرے سے منسوب بہت سی ایسی کہانیاں بھی ہیں جہاں خواتین کی پیٹھ پیچھے اُن کے بارے میں بات کرنا، مذاق اُڑانا اور بسا اوقات نازیبا کلمات ادا کرنا شامل ہے۔

اِن سب چیزوں کا سدباب کیسے ہو؟ آج سے دس سال پہلے والے نیوز روم اور آج کے نیوز روم میں کیا فرق ہے؟ 

اسلام آباد میں خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے کانفرنس منعقد کی گئی، جہاں میڈیا کی خواتین کو نیوز روم میں میں پیش آنے والے مسائل اور ان کے تدارک کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ 

صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا، 'اب بھی نیوز روم کو بہت بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے زمانے میں تو مواقع ہی بہت کم تھے لیکن اب بھی خواتین صحافیوں کے ساتھ فرق روا رکھا جاتا ہے۔ بات صرف نیوز روم کی نہیں بلکہ گھروں کے اندر بھی خواتین کو فیصلہ سازی جیسے معاملات سے الگ رکھا جاتا ہے۔ '

انہوں نے مزید کہا، 'ایسا نہیں ہے کہ مسائل صرف پاکستانی خواتین کے ساتھ ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کے مسائل کی شرح زیادہ ہے۔ نیز یہ کہ ہم مرد حضرات کو ولن بنا کر پیش نہیں کر رہے ہیں۔ نیوز روم میں پہلے صرف مرد حضرات ہوتے تھے تو ابتدا میں بہت مشکل پیش آتی تھی لیکن آہستہ آہستہ ان کو سکھایا گیا کہ خواتین کے ساتھ کیسے برتاؤ کرنا ہے۔'

صحافی امبر رحیم شمسی نے کہا کہ ’خواتین کو ہمیشہ وہ خبریں اور سٹوریز دی جاتی ہیں جو اتنی اہم نہیں ہوتیں۔ ایسا بھی سمجھا جاتا ہے کہ شاید وہ مردوں سے اچھا کام نہیں کر سکتیں۔ دوسرا جن خواتین رپوٹرز کی بیٹ اہم نہیں ہوتی، انہیں اچھی تنخواہ بھی نہیں دی جاتی۔‘

سماجی رہنما طاہرہ عبداللہ نے سوال اُٹھایا کہ ’عورتوں کو تو سکھایا جاتا ہے لیکن مردوں کو کب سکھایا جائے گا کہ وہ خواتین کے ساتھ کیسے پیش آئیں؟‘

پروگرام پروڈیوسر انعم حمید نے کہا کہ ’نیوز روم میں اگر خواتین کو ہراساں کرنے کی بات کریں تو خواتین کو مردوں کی نسبت کمزور سمجھا جاتا ہے۔ مختلف جملے کسے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں خبر کے لیے کام کرنا تمھارے بس کی بات نہیں، خواتین کے لباس، بول چال، میک اپ اور یہاں تک کہ ان کے ہنسنے اورچلنے کے انداز پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔‘

 صحافی عفت حسن رضوی نے کہا کہ ’نیوز روم میں کام کرنے والے سب لوگوں پر منحصر ہے کہ دفتر کا ماحول کیسا ہو، وہ عمومی طور پر ٹھیک ہی ہوتا ہے۔ کسی نے تنگ کرنا بھی ہو تو وہ نیوز روم میں براہ راست تنگ نہیں کرتا۔‘

صحافی جویریہ صدیق کہتی ہیں کہ ’میں نے نیوز روم کے ماحول کو ہمیشہ بہت مثبت پایا۔ دفتر کے ساتھیوں نے ہمیشہ عزت اور تکریم دی، تاہم عام طور پر خواتین صحافیوں کے ساتھ بیٹس کے معاملے میں ناانصافی کردی جاتی ہے اور کچھ سینئرز کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ خواتین کو صرف کلچر اور تعلیمی رپورٹنگ تک ہی محدود رکھا جائے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین