سوات کی رقاصائیں پی ٹی آئی حکومت سے نالاں

سوات میں بنڑ کی رقاصاؤں اور فنکاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ دورِ حکومت میں ان کا روزگار شدید متاثر ہوا ہے۔

بنڑ کی رقاصاؤں اور فنکاروں کے مطابق اب ماضی جیسی آسودگی نہیں رہی (اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں بنڑ کی رقاصاؤں اور فنکاروں نے مقامی پولیس کو اپنے لیے سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ موجودہ دور حکومت میں مہنگائی سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔

سوات کا علاقہ بنڑ رقاصاؤں اور فنکاروں کے لیے مشہور ہے مگر ماضی میں طالبان کے آنے کے بعد دیگر لوگوں کی طرح انہیں بھی علاقہ بدر ہونا پڑا جبکہ کئی رقاصائیں اور فنکارمارے گئے۔

سوات آپریشن کے بعد کئی فنکار واپس بنڑ تو لوٹ آئے ہیں مگر ان کے مطابق اب یہاں پہلے جیسی آسودگی نہیں اور معاشی مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔

رقاصہ اور گلوکارہ شکیلہ بتاتی ہیں کہ ان کی شادی نہیں ہوئی اور وہ 20 سال سے رقص اور گلوکاری کر رہی ہیں۔

تیس سالہ شکیلہ کہتی ہیں کہ پہلے روزگار صحیح چل رہا تھا کیونکہ مختلف تقریبات اور میوزیکل پروگرامز میں جاتے تھے، مگر اب لوگ ان کو نہیں بلاتے، جس کی وجہ سے انہیں معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شکیلہ کے مطابق انہیںعلاقہ مکینوں سے مسئلہ نہیں البتہ انہیں روزگار کے مسائل نے گھیرا ہوا ہے اور ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ ’باہر کے پروگرام کم ہوچکے ہیں۔ پہلے پروگرامز سے پانچ لاکھ روپے تک مل جاتے تھے جو کہ اب صرف 20 ہزار ملتے ہیں۔‘

’بڑا مسئلہ پولیس کا ہے‘

شکیلہ کہتی ہیں کہ پیٹ پالنے یا گھر کا چولہا جلانے کے لیے اسی پیشے کو جاری رکھنا ان کی مجبوری ہے۔ ’اب جب باہر کے پروگرام نہیں ہوتے تو کچھ لوگ گھروں میں آتے ہیں اور رقاصائیں اور گلوکارائیں ان لوگوں کے لیے گھروں میں ہی پروگرام کرتی ہیں۔ ’ہم ڈر کی وجہ سے نہیں بول سکتے لیکن سب سے بڑا مسئلہ پولیس سے ہے۔‘

شکیلہ کے مطابق ان کے گھروں میں آنے والے مہمانوں اور فنکاروں کو پولیس والے پکڑ لیتے ہیں اور گرفتاری اور بے عزتی کے خوف سے اب ان کے ہاں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ کم ہو گیا ہے۔

اس حوالے سے سوات کے ضلعی پولیس افسر سید اشفاق انور نے کہا یہ لوگ گنجان آبادی والے علاقے میں رہتے ہیں اور رات کے ایک اور دو بجے ان کے میوزک پروگرام کی وجہ سے علاقہ مکین تنگ ہوتے ہیں۔

’پولیس کو ان سے کوئی مسئلہ نہیں اور نہ ہی بلا وجہ ان لوگوں کی خلاف قانونی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے، لیکن رات کے دو بجے یہ لوگ میوزک شروع کرتے ہیں اور حدود کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو صرف ان کے خلاف نہیں بلکہ اس طرح کے لوگوں کے خلاف پورے پاکستان میں ایکشن لیا جاتا ہے، اگر یہ لوگ قانون کے اندر اپنا کام کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں ان کو کوئی تنگ نہیں کرے گا۔‘

دلاور بھی بنڑ میں اسی پیشے سے وابستہ ہیں۔ وہ خود باجا بجاتے ہیں جبکہ ان کی بہن سلمہ گلوکاری کرتی ہیں۔ ان کے مطابق بنڑ میں 30 سے 40 گھرانے اس پیشے سے وابستہ ہیں۔

مگر شکیلہ کے مطابق پہلے یہ لوگ زیادہ تھے اب نو سے 10 گھرانے بچے ہیں اور ہر گھر میں تقریباً دو، دو لڑکیاں ہیں۔

شکیلہ اور دلاور کے مطابق علاقے کے لوگ ان کو عزت اور قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، ان کے مہمانوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، ڈر کی وجہ سے یہ لوگ پولیس کا نام نہیں لیتے اور ان کے بچوں کو لوگ حقیر ناموں سے پکارتے ہیں۔

فن پراثرات

دلاور کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بے تحاشا مہنگائی کی وجہ سے اب شادیوں میں لوگ میوزیکل پروگرام نہیں کرتے جس سے ان کو آمدنی ہو جاتی تھی۔ 

وہ کہتے ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں ان کا روزگار اچھا تھا۔

دلاور نے بتایا کہ وہ کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت میں ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کو وظیفے ملیں گے لیکن کئی درخواستیں دینے کے باوجود انہوں کچھ نہیں ملا۔ ’پشاور میں فنکاروں کو پیسے ملے ہیں لیکن ہمیں کچھ نہیں ملا۔‘

خیبرپختونخوا حکومت نے کس کو وظیفے دیے؟

اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے کلچر ڈپارٹمنٹ نے وضاحت دی کہ فنکاروں کے وظیفے کے حکومتی پروگرام کے لیے 26 رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی اور اس کمیٹی نے جن فنکاروں کا انتخاب کیا انہیں وظیفے دیے جا چکے ہیں۔

ادارے کے ذرائع کے مطابق اس کمیٹی نے پورے صوبے میں 500 فنکاروں کا انتخاب کیا تھا اور انہیں آٹھ ماہ تک 30 ہزار روپے دیے جا چکے ہیں۔ یہ رقم 2016، 2017 اور 2017، 2018 میں دو سال تک دی گئی۔

سرکاری ذرائع کے مطابق اب ان فنکاروں میں بنڑ کے کتنے فنکار شامل تھے، اس کا کوئی علیحدہ حساب نہیں البتہ ذرائع کا کہنا ہے کہ بنڑ کے فنکار اس میں شامل ضرور تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی فن