لپ سٹک کا قصور

ایک لپ سٹک تک اپنی مرضی سے لگانے سے محروم عورت جب اپنی چھوٹی چھوٹی محرومیوں کا شکوہ کرنے نکلتی ہے تو اس کی یہ بات بھی گراں گزرتی ہے۔

ساری عمر عورت پر حکمرانی کرنے والا مرد اب یہ بھی چاہتا ہےکہ مارچ میں لکھے جانے والےنعرے اس کی مرضی سے لکھے جائیں (تصویر: اے ایف پی)

’وہ کہتا ہے اسے زندگی اچھی لگتی ہے اور زندگی سے بھرپور لڑکیاں۔

تو پھر تم نے بننا سنورنا کیوں چھوڑ دیا؟

اسے میرا لپ سٹک لگانا پسند نہیں۔

مگر کیوں؟

وہ کہتا ہے مردوں کو لبھانے کا سامان ہے۔

بال کیوں نہیں کٹواتی؟

اسے لمبے بال پسند نہیں، ہاں مگر ماڈرن چھوٹے بالوں والی لڑکیاں پسند ہیں۔‘

یہ الفاظ گھر میں بيٹھی ایک عام پاکستانی لڑکی کے ہیں جو صبح سے شام گھر کی تزئین و آرائش پر تو لگا سکتی ہے مگر جب خود سنورنے بیٹھتی ہے تو اس کو یہ شوق اس لیے ترک کرنا پڑتا ہے کیوں کہ معاشرے میں رہنے والے مردوں کی نیت اس لپ سٹک کو دیکھ کر خراب ہو سکتی ہے۔

اور یقین کیجیے یہ اس معاشرے میں رہنے والی کسی ایک عورت کی کہانی نہیں بلکہ ان لاکھوں عورتوں کی کہانی ہے جن کی لپ سٹک کو مردوں کو جنسی ذیادتی پر اکسانے کا قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے، مگر قصوروار کیا صرف لپ سٹک ہے یا اس معاشرے میں عورت ہونا ہی جرم ہے؟

کیا زینب اور اس جیسی معصوم پریاں کسی لپ سٹک کی وجہ سے ہوس کا نشانہ بنیں؟ کیا پاکستان کا خواتین کے لیے دنیا میں چھٹے خطرناک ترین ملکوں میں آنا لپ سٹک کی بدولت ہے؟ کیاں دیہاتوں میں رہنے والی 60 فیصد عورتوں کو اس لیے اجرت نہیں دی جاتی کہ وہ لپ سٹک لگاتی ہیں؟

ہاں مگر ایک اور قصوروار ہو سکتا ہے، اور وہ ہے ’عورت مارچ۔‘

جو ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے میں لفظ ’جسم‘ استعمال کرکے معاشرے میں فحاشی کا سبب بن رہا ہے اور غلط لفظ تو ’مرضی‘ بھی ہے۔ جس ملک میں سالانہ 15 ہزار عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے وہاں مرضی کی کیا مجال کے وہ کسی جملے میں استعمال بھی ہو۔

اس بات سے قطع نظر کہ اسی عورت مارچ میں ہر حق چاہے وہ جہیز ہو یا پھر مساوی معاوضے کے بارے میں بھی بات کی گئی تھی، زیر بحث صرف وہ ہی نعرے آئیں گے جو کہیں نا کہیں جسم یا کپڑوں سے جوڑے جا سکتے تھے اور اس پر ستم یہ کہ گھر بیٹھی معصوم عورتوں کو اس بات پر قائل کر لیا جاتا ہے کہ یہ عورت مارچ میں شریک آوارہ عورتیں تمہارے حقوق کے لیے نہیں بلکہ اپنی آزادی کے لیے نکلی ہیں۔

اس بات سے بھی قطع نظر کہ صنفی مساوات کی فہرست میں پاکستان دنیا کے بدترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے، صرف اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ اس مارچ سے کچھ نہیں ہو گا کیوں کہ تمام حقوق تو پہلے سے میسر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ساری عمر عورت پر حکمرانی کرنے والا مرد اب یہ بھی چاہتا ہے کہ مارچ میں لکھے جانے والے نعرے اس کی مرضی سے لکھے جائیں۔ چلیں فرض کریں عورتیں یہ کرنے پر رضامند ہو جاتی ہیں تو کیا آپ اس بات کا وعدہ کرتے ہیں کہ معاشی اور معاشرتی ہر لحاظ سے عورت کو برابری ملے گی۔ آپ کے تجویز کردہ نعروں کے استعمال کے بعد اس ملک میں کسی بیوی کو روٹی گول نہ بنانے پرنہیں جلایا جائے گا، کوئی عورت تیزاب گردی کا شکار نہیں بنے گی، کوئی 60 سال کا مرد کسی 12 سال کی بچی سے شادی نہیں کرے گا؟

ایک لپ سٹک تک خود کی مرضی سے لگانے سے محروم عورت جب اپنی چھوٹی چھوٹی محرومیوں کا شکوہ کرنے نکلتی ہے تو اس کی یہ بات بھی گراں گزرتی ہے۔ فیمینزم اور اس کا پرچار کرنے والوں کو دو چار موٹی موٹی گالیاں دی جاتی ہیں اور گھر بیٹھی عورتوں کو اس بات پر رضامند کر لیا جاتا ہے کہ مغرب کا پیش نامہ سامنے لانے والی یہ عورتیں اس معاشرے کے اقدار کے خلاف کام کرتی ہیں۔

کہیں پر مذہب کی آڑ لے کر مطالبوں کو ہنسی میں اڑا دیا جاتا ہے اور جو حقوق مذہب دیتا ہے وہاں پر تہذیبی اقدار کو وجہ بنا کر عورت کو اس کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔  

اس 8 مارچ کے حوالے سے بھی اسی پرانی بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔ مردوں کی سلامتی کے لیے ایک مرتبہ پھر یہ مارچ خطرہ بن چکا ہے اور اس بات کو دوبارہ سے اچھالا جا رہا ہے کہ عورتوں کے اصل حقوق کی تو کوئی بات نہیں کرتا۔

تو چلو آؤ کرتے ہیں اس معاشرے میں ہر دوسری لڑکی کو ہراساں کرنے کی بات، تیزاب سے جلائے جانے والیوں کی بات، جنسی ذیادتی کا نشانہ بننے والیوں کو انصاف دلانے  کی بات۔

آخر میں قصوروار پتا کون نکلے گی؟ ’لپ سٹک‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ