کوہ قاف میں ’غیرت‘ کے نام پر خواتین کا قتل

’ایسے واقعات عموماً سامنے نہیں آتے اور قاتل رشتہ دار مقامی پولیس، ڈاکٹروں اور وکیلوں سے مل کے ثبوت مٹا دیتے ہیں۔’

تصویر: اولیور کیرول

پاکستان میں ’غیرت کے نام‘ پر خواتین کے قتل کا سنگین مسئلہ کئی دہائیوں سے حل طلب ہے۔ ملک میں قانون سازی ہونے کے باوجود سماجی رویوں میں تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے اس مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکا۔

عام طور پر ’غیرت کے نام‘ پر قتل برصغیر بالخصوص پاکستان کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ روسی فیڈریشن کے مسلمان اکثریتی علاقے شمالی قفقاز (کوہ قاف) میں بھی یہ مسئلہ موجود ہے۔

2 سالہ خوبصورت اور طویل قامت مریم ماگومودوا ایک لمبے عرصے بعد ماسکو سے کزن کی شادی میں شرکت کے لیے داگستان میں واقع اپنے گاؤں لوٹی تھیں لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کے چاچا انہیں گلا دبا کر قتل کر دیں گے۔

مریم کی بدقسمتی ان کے قتل سے دو سال پہلے شروع ہو چکی تھی جب بغیر رضا مندی ان کی شادی اُن سے 14 سال بڑے ایک کزن سے کر دی گئی۔

اس بے رونق شادی میں کافی رونا دھونا ہوا۔

مریم کی آنٹی پتیمت عبدالمسلیموا بتاتی ہیں کہ اُس روز علاقے میں شادی کے ساتھ ساتھ ایک گھر میں میت بھی ہوئی تھی، جسے مقامی آبادی برا شگون سمجھتی ہے۔

مریم کے گاؤں والے نہیں جانتے کہ انہیں کیوں قتل کیا گیا۔ مقامی سکول کے ایک استاد عمرزات ماگومودوا کے مطابق اس حوالے سے محض قیاس آرائیاں ہی ہیں۔

قتل سے بہت پہلے مریم کو طلاق ہو چکی تھی اور ان کے ددھیال والے مریم اور ایک اجنبی کے درمیان ایس ایم ایس کے مبینہ تبادلوں پر نالاں تھے۔

کسی نے وہ ایس ایم ایس دیکھے اور نہ ہی وہ جانتے تھے کہ ان مبینہ ایس ایم ایس کے تبادلوں میں کیا باتیں ہوئیں، تاہم جب یہ معاملہ عدالت پہنچا تو مریم کے چاچا نے ایک مختلف کہانی سناتے ہوئے ان پر نازیبا لباس پہننے کے جھوٹے الزام لگائے۔

دو ہفتوں تک مریم کا ددھیال ان کے لاپتہ ہونے میں اپنے کردار پر خاموش رہا۔

تاہم جب مریم کی لاش ملی تو سچ سامنے آ گیا۔

یہ محض شروعات تھی کیونکہ مریم کے قتل کی رپورٹ درج ہونے میں کئی ہفتے لگ گئے۔

مریم کی والدہ کو اپنی بیٹی کے قاتلوں کو جیل بھیجنے میں چار سال لگے جس کی ایک وجہ ہر قدم پر سرکاری حکام کی جانب سے روڑے اٹکانا تھا۔

اس قتل کی تحقیقات ایک سال تک جاری رہی اور جب معاملہ واپس ضلعی عدالت پہنچا تو ان کے چچا کو بری کر دیا گیا۔

بالآخر یہ عدالتی فیصلہ ختم ہوا اور چچا نے اپنا جرم تسلیم کرلیا جس پر انہیں سات سال کی معمولی سزا سنائی گئی۔

مریم کی خالہ پتیمت کہتی ہیں، ’آخر کار ہمیں انصاف مل گیا۔ مجھے مریم کی آنکھیں بہت خوبصورت لگتی تھیں اور آج بھی میں روزانہ انہیں دیکھتی ہوں۔‘

پتیمت  نے بتایا کہ اس درندگی کے بعد وہ مریم کے ددھیال والوں سے سے بات چیت ختم کر چکے ہیں۔

مسلمان اکثریتی ملک شمالی قفقاز میں صرف مریم کا قتل نہیں ہوا بلکہ یہاں ’غیرت کے نام‘ پر ایسے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔

مریم کی کہانی تفصیل سے بتانے کی دو وجوہات ہیں، ایک: یہ واقعہ بہت مشہور ہوا اور دوسرا: اس قتل کی عدالتی کارروائی حکام کے روڑے اٹکانے کی وجہ سے انتہائی بھونڈے انداز میں ہوئی۔

دسمبر 2018 میں اس معاملے پر پہلی مفصل رپورٹ پیش کرنے والی شریک مصنف اور انسانی حقوق کی وکیل یولیا انتونوا نے بتایا کہ اس علاقے میں ایسے واقعات عموماً سامنے نہیں آتے اور قاتل رشتہ دار مقامی پولیس، ڈاکٹروں اور وکیلوں سے مل کے ثبوت مٹا دیتے ہیں۔

’اگر کبھی کوئی کیس عدالت پہنچ بھی جائے تو مقتول کے رشتہ دار کھلی سماعت کے بجائے بند دروازوں میں سماعت کی درخواست کرتے ہیں‘۔

خطے میں اس مسئلے پر کُھل کر بات نہ کرنے کی وجہ سے اس کے انتہائی گھمبیر ہونے کا بھی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

یولیا کی رپورٹ میں 17-2012 کے درمیان کم از کم 36 ایسے مصدقہ کیسوں کو قلم بند کیا گیا ہے۔

یولیا نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ایسے کیسوں کی تعداد دس گنا زیادہ ہے جبکہ ’میرے ذاتی خیال میں ان پانچ سالوں میں غیرت کے نام پر تقریباً 500 قتل ہوئے‘۔

غیرت کے نام پر قتل میں خواتین کو عموماً گلا دبا کر یا چھری کے وار سے مارا جاتا ہے، تاہم کئی مرتبہ پستول، زہر حتی کہ کلہاڑی کا استعمال بھی رپورٹ ہو چکا ہے۔

شمالی قفقاز کے دیہی علاقوں میں قاتل اکیلا نہیں بلکہ اسے خاندان کے مردوں پر مشتمل ’کونسل‘ کی آشیر باد حاصل ہوتی ہے۔

بعض اوقات قریبی رشتہ دار قتل کے مخالف ہونے کے باوجود کونسل کے دباؤ کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔

شمالی قفقاز میں بدکاری اور غیر اخلاقی حرکات کو غیرت کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔

2015 میں پیش آئے ایک ایسے ہی واقعے میں ایک لڑکی کو اس کے چاچا نے محض سگریٹ پیتا دیکھ کر قتل کر دیا تھا۔

علاقے میں کئی لڑکیوں کو ’غیرت کے نام‘ پر قتل ہونے سے بچانے والی مقامی صحافی ویٹلاناانوکھینا کے مطابق مرد عموماً اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے بھی غیرت کا سہارا لیتے ہیں۔

ویٹلانا کہتی ہیں، ’ہمیں یہاں کی ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے، یہ غیرت کے نام پر قتل نہیں بلکہ سفاکی ہے‘۔

مرد ڈکیتی، چوری یا خاتون کا ریپ کرنے کے بعد اپنا جرم چھپانے کے لیے بھی ’غیرت کے نام‘ پر قتل کر دیتے ہیں۔

اسی طرح کا ایک خوفناک کیس 2013 میں سامنے آیا تھا جب عبداللہ نامی شخص نے تفتیش کاروں کو بیان دیا کہ انہوں نے مبینہ ’بدکاری‘ پر طیش میں آ کر اپنی 14 سالہ بیٹی کو قتل کر دیا۔

تاہم تفتیش سے پتا چلا کہ عبداللہ دو سالوں سے اپنی بیٹی کا ریپ اور تشدد کر رہا تھا لیکن جب متاثرہ لڑکی نے ایک قریبی خاتون رشتہ دار کو سب کچھ بتا دیا تو پکڑے جانے کے خوف سے عبداللہ نے اسے قتل کر دیا۔

عبداللہ کو اس قتل پر 12 سال قید کی سزا سنائی گی۔

خطے کا بدعنوان پولیس نظام بھی خواتین کو انصاف دلوانے میں بڑی رکاوٹ ہے۔

مریم کا کیس لڑنے والی وکیل سلیمت کدرووا کہتی ہیں کہ انہیں آج بھی یاد ہے کہ کس طرح مریم کے قاتلوں کو پولیس کا خاص تحفط حاصل تھا۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ مذہب کی مدد سے علاقے میں مردوں کی سوچ بدلی جا سکتی ہے۔

2013 کے بعد سے مقامی علما کی قیادت باضابطہ طور پر ’غیرت کے نام‘ پر قتل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے شریعت کے منافی قرار دیتی ہے۔

تاہم کچھ کیسز میں مقامی علما نے اس کے برعکس کردار بھی ادا کیا۔

شمالی قفقاز کے مرکز ماخااچکالا کی جامع مسجد کے امام زین اللہ عطایو نے انڈیپنڈنٹ کے رابطہ کرنے پر بد دلی سے ’غیرت کے نام ‘ پر قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری روایات نے ہی اب تک داگستان کو اخلاقی تباہی سے بچا رکھا ہے‘۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین