’نمایاں خواتین کے نام پر اتنی کم سڑکیں، شرم کی بات ہے‘

پاکستان میں دو، تین خواتین سے سڑکیں یا جگہیں منسوب کر کے سمجھا جاتا ہے کہ بس ہمارا کام ہو گیا: ڈاکٹر فوزیہ سعید۔

پاکستان میں جتنی بھی ترقی ہوئی اس میں خواتین کا بھر پور کردار رہا ہے۔ پدرشاہی معاشرے میں شدید مشکلات کے باوجود انہوں نے ہر شعبے میں خود کو ثابت کیا لیکن اگر ایک عام پاکستانی سے پوچھیں تو اسے ملکی تاریخ میں چند خواتین ہیروز کے نام ہی یاد ہوں گے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو نے جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر کامیاب خواتین کو نمایاں مقام کیوں نہیں ملتا اور کیوں پاکستان میں سڑکوں کے نام خواتین سے منسوب کرنے کا رواج نہیں۔

اس ضمن میں پاکستان کونسل آف آرٹس کی ڈائریکٹر ڈاکٹر فوزیہ سعید نے کہا عورتوں کی کامیابیوں کو بہت کم سراہا گیا ہے۔ ’تحریک پاکستان میں ایسے ایسے نگینے تھے لیکن ہم صرف دو، تین نام سنتے ہیں۔ فاطمہ علی جناح، رعنا لیاقت علی خان اور اگر کبھی کہیں کوئی آرکائیول نمائش ہو تو اس میں بیگم شاہ نواز کی تصویر ہوتی ہے۔

’ان کے علاوہ بے نظیر بھٹو بھی اس فہرست میں شامل ہیں اور ان ہی تین ناموں پر سڑکوں یا جگہوں کے نام رکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام ہو گیا۔‘

 ڈاکٹر فوزیہ نے مزید کہا کہ سڑکوں کے نام خواتین ہیروز سے منسوب کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو باور کرایا جا سکے کہ خواتین نے بھی ملک کے لیے بہت کچھ کیا۔ ’اگر لوگ نام ہی نہیں سنیں گے تو انہیں لگے گا کہ ایسی خواتین گزری ہی نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ جب وہ لوک ورثہ میوزیم کی سربراہ تھیں تو انہوں نے خطے کی مشہور خواتین لوک گلوکاروں کے نام سے ہالز کے نام پر منسوب کیے تھے۔ ’پشتو کی زار سنگا، بلوچی زبان کی ہانی بلوچ، سندھی کی مائی بھاگی، پنجابی کی بالی جٹی، لیکن افسوس کی بات ہے کہ جب میں نے لوک ورثا چھوڑا تو ان ہالز کے نام بدل کر رنگوں پر رکھ دیے گئے۔‘

’جب مردوں کے ناموں پر اتنی سڑکیں اور جگہیں ہیں تو خواتین کی کیوں نہیں؟ دونوں کی خدمات کو برابری سے نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بہت بڑی خلیج ہے لہٰذا انتظامیہ کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو اس میں شامل کریں۔‘

 اسلام آباد میں واقع انسٹٹیوٹ آف اربنزم سے منسلک عائشہ مجید نے بتایا کہ سڑکوں کے ناموں میں خواتین کا کوئی ذکر نہیں، یہ مسئلہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہے اور اس پر کام کیا جا رہا ہے۔

’حقوق نسواں پر کام کرنے والوں نے بہت جدوجہد کے بعد پیرس کی کچھ سڑکوں کے نام بدلوا کر اہم خواتین کے نام رکھوائے۔ یہ معاملہ امریکہ، کروشیا، جارجیا اور دیگر ممالک میں اٹھایا جا رہا ہے۔‘

عائشہ نے مزید کہا کہ سڑکوں کے نام خواتین ہیروز کے نام پر رکھنا اس لیے ضروری ہیں تاکہ عام عورت کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین