’عورت مارچ کے نتائج خطرناک ہوں گے‘

خواتین کے عالمی دن پر خواتین کے حقوق کی بات ہونی چاہیے، ان پر ہونے والے ظلم و ستم پر بات ہونی چاہیے۔

خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے آج خواتین کے حقوق کو جس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے میں ذاتی طور پر اس کے حق میں نہیں ہوں۔ (ٹوئٹر)

عورت مارچ پوری ملک میں زیر بحث ہیں، تنقید بھی ہو رہی ہیں اور تائید کرنے والے بھی میدان میں ہیں، اس بحث میں شدت اس وقت آئی جب ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمان صاحب اور ماروی سرمد صاحبہ کے درمیان اس موضوع پر تلخ اور نامناسب جملوں کا تبادلہ ہوا. 

عورتوں کا عالمی دن منانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، یہ دن اس لیے بھی منانا انتہائی ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین ان حقوق سے محروم ہیں جو 14 سو سال پہلے اسلام نے انہیں عطا  کیے تھے۔

خواتین کے عالمی دن پر خواتین کے حقوق کی بات ہونی چاہیے۔ ان پر ہونے والے ظلم و ستم پر بات ہونی چاہیے، وراثت میں ان کے حصہ پر بات ہونی چاہیے، کم عمری میں ہونے والے شادیوں پر بات ہونی چاہیے، ان کے مرضی کیخلاف ہونے والے ان کی شادیوں پر بات ہونی چاہیے، ان کی دینی و دنیاوی تعلیم کو فروغ دینے پر بات ہونی چاہیے، اور ایسے دیگر بے شمار بنیادی مسائل جن سے آج کل کی خواتین دوچار ہیں موضوع بحث لانا چاہیے، حقائق کو معاشرے کے باشعور عوام اور ملک کی حکمرانوں کے آگے رکھنا چاہیے، ان کو دلائل اور حقائق کی بنیاد پر اس بات کو مجبور کرنا ضروری ہیں کہ وہ معاشرے میں عورت کا وہ مقام اور عظمت تسلیم کر لیں جو ان اسلام نے بطور تحفہ دیا ہے۔ 

 لیکن خواتین کے عالمی دن کے مناسبت سے آج خواتین کے حقوق کو جس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے میں ذاتی طور پر اس کے حق میں نہیں ہوں۔ 

’میرا جسم میری مرضی‘ کے علاوہ بے شمار ایسے نعرے لگائے جا رہے ہیں جن کی نہ تو اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی وہ اخلاقی طور پر ٹھیک ہیں۔ ان متنازع نعروں کی وجہ سے عورتوں کے حقوق کے کے لیے چلنے والی تحریک کو نہ صرف نقصان پہنچا بلکہ ان خواتین کی کوششوں پر بھی پانی پھرنے کی کوشش کی گئی جو عرصہ دراز سے تمام تر مفادات سے بالاتر ہو کر خواتین کے جاری استحصال کے خلاف مصروف عمل تھیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

متنازع عورت مارچ کی منتظمین خواتین اصل مسائل اور ان کے حقوق پر بات کرنے کی بجائے غیر ضروری نعروں اور مغربی کلچر کے فروغ پر بات کرتی ہیں جس سے عام لوگوں کو یہ تاثر دیا جاتا ہیں کہ وہ کسی مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں جس کی وجہ سے لوگ خواتین کا عالمی دن منانے سے متنفر ہو رہے ہیں اور ان کے مسائل جوں کے توں ہیں۔

ہمارے معاشرے میں عورت کا احترام کیا جاتا ہیں، اس کو عزت دی جاتی ہیں، وہ محروم ہیں تو اپنے حقوق سے محروم ہیں، ان کے حقوق پر بات ہونی چاہیے۔ خواتین کے حقوق کے نام  نہاد علم بردار جو نعرے لگا رہے ہیں وہ اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں جس سے خواتین کے حقوق کے لیے اٹھنے والی اصل آوازوں پر منفی اثر پڑے گا۔ اس سے انتشار پھیلے گا، اور مستقبل قریب میں اس کے بہت خطرناک نتائج نکلیں گے۔ اس سے خواتین کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔ مغربی معاشروں میں بے شک عورتوں کو ان کے حقوق حاصل ہیں لیکن ان کو آج وہ مقام اور عزت نصیب نہیں ہے جو ہمارے ہاں خواتین کو حاصل ہیں۔

 میں مانتی ہوں یہاں بھی کچھ لوگ خواتین کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، جن کی اصلاح پر کام کرنا چاہیے،اور ان کو سمجھنا چاہیے کہ عورت صرف جنس مخالف ہی بلکہ انسان بھی ہے۔ وہ صرف ماں، بہن، بیٹی، بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسان بھی ہے۔

آٹھ مارچ خواتین کے عالمی دن کو نامناسب اور غیر ضروری نعروں  کے ذریعے متنازع بنانے سے بہتر ہے کہ ہم ان کے اصل مسائل کو سامنے لائیں، ان کے جائز حقوق پر اسلام اور قانون کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے بات کریں، ان لاچار اور بے بس خواتین کے لیے بات ہونی چاہیے بو مظالم کے شکار ہیں۔ ہمیں مزید لگن، خلوص اور جذبے سے کام کرنا ہو گا اور عورت کو انسان سمجھنا ہو گا۔

---------------------------------

یہ تحریر مصنفہ کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے اور انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ