’میرا جسم، تمہاری مرضی، اب خوش؟‘

ساری ریلی میں جوش و جذبے کی کوئی کمی نہیں تھی، البتہ میری نگاہیں پلے کارڈز پڑھنے میں مصروف تھیں۔ جی ہاں میں وہ نعرہ ڈھونڈنے میں مصروف تھی جو گذشتہ کئی روز سے لڑائی جھگڑے کا باعث بنا ہوا تھا۔

عورتوں کے عالمی دن پر میری ڈیوٹی بھی لگی کہ لاہور میں خواتین جہاں کوئی ریلی نکالیں میں اسے کور کروں۔ خواتین کی ایک ریلی پریس کلب کے باہر نکلنی تھی جسے ایوان اقبال تک جانے کی اجازت ملی۔

خواتین کے عالمی دن پر اس ریلی کو عورت مارچ کا نام دیا گیا تھا اور یہ کوئی نیا نام نہیں تھا بلکہ گذشتہ تین برس سے یہ ریلی نکالی جارہی ہے اور تب سے ہی اس کے بارے میں متنازع باتیں سامنے آتی ہیں۔ اس برس اس ریلی کی تیاریوں سے لے کر آج کے دن تک اور مجھے پوری امید ہے کہ اگلے آنے والے کئی ہفتوں تک اس کے بارے میں اچھی کم اور بری باتیں زیادہ ہوتی رہیں گی۔

ریلی کور کرنے کے لیے میں گھر سے تھوڑا جلدی نکلی، وقت 11 بجے کا تھا، سڑکیں بند نہ کر دی جائیں تو سوچا وقت سے پہلے ہی مقررہ جگہ پر پہنچ جائوں ۔ لاہور پریس کلب تک پہنچنے میں کسی قسم کی کوئی دشواری نہ ہوئی، سڑکیں خالی تھیں  البتہ پاس سے گزرتی ہوئی گاڑیوں میں پلے کارڈز اور خواتین ضرور نظر آئیں اور ان کی منزل بھی وہی تھی جو میری، فرق صرف اتنا تھا کہ وہ اس میں شریک ہونے جارہی تھیں اور مجھے اس کی خبر دینی تھی۔

پریس کلب پہنچی تو اس کی باہر والی سڑک کو قناتیں اور خار دار تاریں لگا کر بند کیا گیا تھا جب کہ ایک جگہ دو واک تھرو گیٹس لگے تھے جہاں مردوں اور عورتوں کی پوری چیکنگ کی جارہی تھی۔ چیکنگ کے لیے بھی مرد و خواتین پولیس اہلکار تعینات تھے۔ اندر داخل ہوتے ہی دیکھا کہ یہاں ایک نئی دنیا آباد تھی۔ نوجوان بچے بچیاں، کہیں بزرگ، کچھ مڈل ایجڈ مرد خواتین جنہیں دیکھ کر صاف دکھائی دیتا تھا کہ ان کا تعلق اچھے پڑے لکھے گھرانوں سے تھا۔ 

پھر میری نظر ایک ایسے گروپ پر پڑی جس میں ایسی خواتین شامل تھیں جو یا تو گھروں میں کام کرتی ہیں یا بھٹوں پر ان کے ساتھ کچھ مرد  بھی تھے اور یہ اپنے ہی نعروں کے ذریعے اپنا حق مانگ رہیں تھیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک دو نے انگریزی کے بینر اٹھا رکھے تھے جب ان سے ان پلے کارڈز کی تحریر کا مطلب پوچھا گیا تو جواب ملا ہمیں نہیں معلوم، ہم پڑھے لکھے نہیں۔

ساری ریلی میں جوش و جذبے کی کوئی کمی نہیں تھی، البتہ میری نگاہیں پلے کارڈز پڑھنے میں مصروف تھیں۔ جی ہاں میں وہ نعرہ ڈھونڈنے میں مصروف تھی جو گذشتہ کئی روز سے لڑائی جھگڑے کا باعث بنا ہوا تھا۔ سمجھ تو آپ گئے ہوں گے، تلاش ختم ہوئی اور ایک بزرگ سماجی کارکن نگہت سعید خان کے ہاتھ میں پیلے رنگ کے پلے کارڈ پر پڑی جس پر تحریر نظر آئی ’میرا جسم‘ میں فوراً متوجہ ہوئی، اگلی لائن پڑھی تو لکھا تھا ’تہماری مرضی اب خوش‘۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

متنازع نعرے اس طرح سے دکھائی نہیں دیے۔ مارچ میں شامل خواتین اپنی آزادی کا حق طلب کرتی دکھائی دیں۔ ریلی کے لیے پریس کلب سے لے کر ایوان اقبال تک سڑک کسی بھی قسم کی ٹریفک کے لیے بند تھی وہاں یا تو خواتین و مرد پولیس اہلکار موجود تھے یا پھر عورت مارچ۔ اس مارچ میں مجھے مردوں کی ایک بڑی تعداد بھی نظر آئی جو اپنی بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں کے ساتھ کھڑے تھے ۔ ریلی پر امن طریقے سے ایوان اقبال جا کر رکی اور تمام شرکاء وہاں زمین پر بیٹھ گئے۔ اور پھر خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک ڈرامہ پیش کیا گیا۔ جس کے بعد اسی پر امن طریقے سے ریلی اختتام پذیر ہوئی ۔  اس ریلی میں منیزہ جہانگیر، نادیہ افغن، علی آفتاب سید، ساجدہ ونڈل سمیت کئی مشہور شخصیات نے بھی شرکت کی اور تقریبا ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین و مرد، طلبہ و طالبات شامل تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان