پنجاب کے ڈاکٹر پھر سڑکوں پر نکل آئے

حکومت پنجاب کی جانب سے صوبے بھر  کے ٹیچنگ ہسپتالوں میں میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ (ایم ٹی آئی) ایکٹ نافذ کرنے کے خلاف ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف احتجاج کر رہا ہے۔

پنجاب کے ٹیچنگ ہسپتالوں میں صوبائی حکومت کی جانب سے میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ (ایم ٹی آئی) ایکٹ لاگو کرنے کے خلاف لاہور میں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آیا ہے۔

حکومت پنجاب کی جانب سے تین ماہ قبل صوبے بھر  کے ٹیچنگ ہسپتالوں میں میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ (ایم ٹی آئی) ایکٹ لاگو کرنے کا آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جس کے خلاف ڈاکٹروں اور میڈیکل سٹاف نے احتجاج کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب اس آرڈیننس کے 90 روز مکمل ہونے پر حکومت نے اسے باقاعدہ قانونی شکل دینے کے لیے پنجاب اسمبلی سے منظوری کا فیصلہ کیا اور پیر سے شروع ہونے والے اجلاس میں یہ بل پاس کرانے کی حکمت عملی بنائی گئی۔

تاہم اس قانون سازی کے خلاف پنجاب کے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آیا اور جب انہوں نے پنجاب اسمبلی کے سامنے چیئرنگ کراس مال روڑ پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور دھرنا دیا تو پولیس نے انہیں وزرا اور اراکین اسمبلی کی آمد سے قبل زبردستی منتشر کرنے کی کوشش کی، جس پر پولیس اور مظاہرین میں ہاتھا پائی ہوئی۔

پولیس نے دھکے دے کر مظاہرین کو سڑک سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن مزاحمت کے باعث کامیابی نہ ہوئی جبکہ مثاہرین نے یہ ایکٹ واپس لینے تک احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔

ایم ٹی آئی ایکٹ ہے کیا؟

ایم ٹی آئی ایکٹ تیار کرنے والی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر زبیر قادر  نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں  کہا کہ ٹیچنگ ہسپتالوں میں رائج ہونے والے اس نئے ایکٹ کے تحت اسسٹنٹ پروفیسرز کے لیے وارڈز میں ڈیوٹیاں یقینی بنائی گئی ہیں، شام کے وقت او پی ڈی سروس شروع کی جارہی ہے جہاں صاحب حیثیت مریضوں کا فیس لے کر علاج ممکن ہوگا اور ان فیسوں سے ڈیوٹی افسران کو بھی حصہ ملے گا لیکن انہیں پرائیویٹ کلینک چلانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

انہوں  نے مزید بتایا کہ اس ایکٹ کے تحت نئے میڈیکل کالجز بنائے جائیں گے، جن میں سیلف فنانس پر داخلوں سے پرائیویٹ میڈیکل کالجز جانے والے طلبہ یہاں تعلیم حاصل کر سکیں گے۔

ڈاکٹر زبیر قادر کے مطابق ٹیچنگ ہسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی سربراہی میں دس رکنی بورڈ آف ڈائریکٹرز بنایا گیا ہے جس میں پرائیویٹ اراکین بھی شامل ہوں گے۔ یہ بورڈ ہسپتال کا بجٹ بھی خود بنائے گا اور ضروری مشینری کی خریداری سمیت دیگر اخراجات میں بھی با اختیار ہوگا اور خود فنڈز خرچ کر سکے گا، جس سے غیرضروری تاخیر کا خاتمہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ایف سی پی ایس کرنے والے ڈاکٹرز کو پانچ سال پریکٹس پوری ہونے پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز میں ڈیوٹی کرنا ہوگی، جبکہ اس سے قبل سپیشلائزیشن کرنے والے ڈاکٹرز ہمیشہ بڑے ٹیچنگ ہسپتالوں میں ہی ڈیوٹی کرتے ہیں، چھوٹے شہروں میں ڈیوٹی کے لیے نہیں جاتے۔

ڈاکٹر زبیر قادر  نے کہا کہ اس ایکٹ سے ہسپتالوں میں عام مریضوں کے علاج میں بہتری آرہی ہے جبکہ زیادہ پیسے صرف صاحب حیثیت افراد کو ہی ادا کرنا ہوں گے، غریب مریضوں کے لیے علاج کی پہلے سے طے مفت سہولیات جاری رکھی جائیں گی۔

مظاہرین کے اعتراضات اور حکومتی پالیسی

ایم ٹی آئی ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ حکومت ہسپتالوں کی نجکاری کر رہی ہے، جس سے نہ صرف ڈاکٹروں اور میڈیکل سٹاف کی نوکریاں مشکل ہوں گی بلکہ عام آدمی کے  لیے علاج بھی مہنگا ہوگا۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن فیصل آباد کے صدر نعمان چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ حکومت علاج کی بہترین سہولیات کا دعویٰ کر کے عوام اور ڈاکٹروں کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکریاں کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا تو علاج کہاں سے بہتر ہوگا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے یہ ایکٹ واپس نہ لیا تو احتجاج کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلا دیا جائے گا۔

دوسری جانب صوبائی وزیر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ یہ ایکٹ لاگو ضرور ہوگا۔ ’ہم عوام کو صحت کی بہتر سہولیات فراہم کرنا چاہتے ہیں، ڈاکٹروں کا احتجاج بند نہ ہوا تو کارروائی ہوگی۔‘

ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز ہسپتال بند کرنے سے باز رہیں کیونکہ ایم ٹی آئی ایکٹ واپس نہیں لیا جائے گا، یہ عام آدمی کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں کی نجکاری نہیں ہوگی بلکہ نظام کو پرائیویٹائز اور بااختیار بنایا گیا ہے۔ ’جو ڈاکٹر ایمانداری سے فرائض سرانجام دیں گے ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن جو ڈیوٹیاں نہیں کرتے ان کے خلاف سخت ایکشن پہلے بھی ہوتا تھا اور اب بھی ہوگا۔‘

واضح رہے کہ پی ٹی آئی حکومت خیبر پختونخواہ میں پہلے ہی ایم ٹی آئی ایکٹ نافذ کر چکی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت