افغانستان: امریکی فوج کا دو اڈوں سے انخلا شروع

ایک امریکی اہلکار کے مطابق فوجیوں نے لشکرگاہ اور ہیرات میں قائم امریکی فوجی اڈوں سے جانا شروع کر دیا ہے۔

افغان طالبان کے ساتھ معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ افغانستان میں موجود 12 ہزار امریکی فوجیوں کو کم کر کے آٹھ ہزار چھ سو تک لایا جائے گا۔(اے ایف پی فائل)

پینٹاگون حکام کے مطابق امریکہ نے گذشتہ ماہ افغان طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کے تحت افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا شروع کر دیا ہے۔

افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان کرنل سونی لیگٹ کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کے 135 دنوں کے اندر اندر امریکہ اپنی افواج میں کمی کرے گا۔

ان کے مطابق امریکہ نے افغان طالبان کے ساتھ معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ افغانستان میں موجود 12 ہزار امریکی فوجیوں کو کم کر کے آٹھ ہزار چھ سو تک لایا جائے گا۔

کرنل لیگٹ نے ایک بیان میں کہا کہ اس کمی کے باوجود ’ہمارے مقاصد حاصل کرنے کے لیے تمام فوجی معاملات اور انتظام امریکی افواج کے ہاتھ میں ہی رہیں گے، جن میں القاعدہ اور داعش کے خلاف انسداد دہشت گردی آپریشنز، اور افغان سکیورٹی فورسز کو مدد فراہم کرنا شامل ہے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کو امریکی فوجیوں نے دو اڈوں سے انخلا شروع کیا۔ 

ایک امریکی اہلکار نے اے ایف پی کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ فوجی جنوبی صوبے ہلمند میں لشکر گاہ اور مشرقی افغانستان میں ہیرات میں قائم دو اڈوں سے جانا شروع ہو گئے ہیں۔ 

ایک اور امریکی اہلکار نے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ منصوبے کے مطابق سینکڑوں امریکی فوجی افغانستان سے جا چکے ہیں اور ان کی جگہ مزید فوجی نہیں آئیں گے۔ 

انخلا کے بارے میں عام اعلان سے پہلے اہلکار نے اے پی سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انخلا ایسے موقعے پر سامنے آیا ہے جب پیر کو دو صدارتی حریف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی نے علیحدہ تقریبات میں صدر کا حلف اٹھایا۔

امن معاہدے میں اس کا ذکر نہیں کہ امریکی فوج کا انخلا سیاسی استحکام سے جڑا ہے تاہم افغانستان میں کشیدہ سیاسی صورت حال امریکہ کے لیے پیچیدہ ثابت ہو سکتی ہے۔  

خیال رہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر 29 فروری کو دوحہ میں دستخط کیے گئے تھے۔

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے چار حصے تھے جن میں سے ایک حصہ افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا پر مشتمل تھا۔

غیرملکی افواج کے انخلا سے متعلق معاہدے میں لکھا گیا تھا: ’ضمانتیں، اس پر عمل درآمد کرنے کا طریقہ کار اور وقت کا اعلان جس کے تحت تمام غیرملکی فوجیں افغانستان سے واپس چلی جائیں گی۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فریقین کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا کہ معاہدے کے 135 دنوں کے اندر اندر امریکی افواج کی تعداد آٹھ ہزار چھ سو پر لانے کے بعد امریکہ اور اس کے شراکت دار ’اپنی بقیہ افواج کو افغانستان سے 14 ماہ کے دوران نکال لیں گے، اور فوجی اڈوں میں رہ جانے والے بقیہ فوجیوں کو بھی نکال لیا جائے گا۔

واضح رہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے میں افغان حکومت نے حصہ نہیں لیا تھا۔

تاہم معاہدے کے مطابق امریکہ اور طالبان افغان فریقین کے مابین مذاکرات سے پہلے پانچ ہزار قیدیوں کا تبادلہ کریں گے۔ افغان فریقین کے مابین امن مذاکرات کا آغاز 10 مارچ کو ہونا ہے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی پہلے ہی امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے اس اہم حصے کو مسترد کر چکے ہیں جس کے مطابق افغانستان میں قید ہزاروں جنگجوؤں کی رہائی پر زور دیا گیا۔

افغان صدر کے مطابق امن معاہدے کے تحت پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ افغان عوام کی مرضی اور ان کی رائے سے کیا جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا