‘ڈر تھا کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد نوکری کیسے کروں گی’

تصویر انڈیپنڈنٹ اردو

گل مینہ خان کی شادی دو سال پہلے ہوئی ہے۔ ان کی شادی اس وقت ہوئی جب وہ  پشاور یونیورسٹی سے سائیکولجی میں ماسٹر کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد نوکری تلاش کر رہی تھیں۔

تاہم شادی کے ایک سال بعد ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوگئی اور یوں انہوں نے نوکری کی امید اس وجہ سے ترک کردی کہ ان کے بقول انہیں بیٹی کی پرورش کرنی تھی۔

‘جب شادی ہوگئی تو اس وقت میرے ذہن میں یہی ڈر تھا کہ شادی کے بعد کسی بھی خاتون کے لیے نوکری کرنا آسان کام نہیں ہے اور یہی خدشہ درست ثابت ہوا۔’

تاہم گل مینہ نے ہمت نہیں ہاری۔انہوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے سوچ بچار شروع کی کہ وہ کچھ ایسا کریں جس سے لڑکیوں کو شادی کے بعد بچوں کی وجہ سے تعلیم یا نوکری کو خیرباد نہ کہنا پڑے۔ان کے بقول گھر والوں کی سپورٹ ان کو حاصل تھی۔

خیبر پختونخوا حکومت نے دو سال پہلے ’کے پی ایمپیکٹ چیلنج‘ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت حکومت نے نوجوانوں سے چھوٹے کاروبار یا کمیونٹی سروسز شروع کرنے کے لیے آئیڈیاز مانگے تھے۔

گل مینہ نے بھی ایک ایسے ہی آئیڈیا پر کام کیا اور وہ اس مقابلے میں کامیاب ہو گئیں۔ گل مینہ نے انڈ یپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ پشاور میں چائلڈ ڈے کیئر بنانا چاہتی تھیں کیونکہ اس کی کمی انہیں تب محسوس ہوئی جب وہ اپنی بچی کی وجہ سے نوکری نہیں کر سکتی تھیں۔

انہوں نے حکومتی تعاون سے پشاور کے گل بہار علاقے میں ڈے کیئر مرکز کی بنیاد رکھی۔

اس مرکز میں اب تک اٹھارہ بچوں نے داخلہ لیا ہے۔ گل مینہ نے بتایا کہ مرکز میں شیر خوار بچوں سے لے کر پانچ سال تک کے بچے داخلہ لے سکتے ہیں۔

‘میری طرح بہت سی خواتین ہیں جو شادی کے بعد پڑھنا اور نوکری کرنا چاہتی ہیں۔ اسی غرض سے اس مرکز کی بنیاد رکھی گئی ہے کہ خواتین اپنے بچوں کو ڈیوٹی کے دوران اس مرکز میں چھوڑیں اور بغیر کسی روک ٹوک کے اپنا کام کر سکیں’۔

ڈے کیئر میں کیا سہولیات موجود ہیں؟

گل مینہ نے بتایا کہ ڈے کیئر میں بچوں کی دیکھ بھال کے لیے چار خواتین ملازمین رکھی گئیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ والدین اپنے بچوں کو صبح 8 بجے چھوڑتے اور شام 6 بجے تک واپس لے جاتے ہیں۔

گل مینہ کی چھوٹی بیٹی بھی اسی ڈے کیئر میں ہوتی ہے اور انہوں نے خود ایک پرائیوٹ ادارے میں نوکری شروع کی ہے۔ اپنی چھوٹی بیٹی گود میں لیے گل مینہ نے اس کے طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسے یہاں چھوڑنے میں اب مجھے کوئی ڈر نہیں کیونکہ یہاں اسے گھر جیسا ماحول میسر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مرکز میں بچوں کے کھیلنے کودنے، بنیادی تعلیم جیسا کہ ذہنی نشونما کی چیزیں اور گیمز کے ساتھ ساتھ تین سال سے زائد بچوں کے لیے غیر رسمی تعلیم کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔

گل مینہ کی طرح ایسی بہت سی خواتین ہیں جو شادی کے بعد تعلیم یا نوکری جاری نہیں رکھ سکتیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ سرکاری و نجی دفتروں میں چائلڈ ڈے کیئر مراکز کی کمی ہے۔

مہر خان پشاور یونیورسٹی میں لیکچرر ہیں ۔ انہوں نے اب اسی ڈے کیئر میں اپنی بچی کو داخل کروایا ہے۔ مہر نے انڈ یپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی شادی کو دو سال ہو گئے ہیں لیکن شادی کے بعد ان کو بچی کے ساتھ یونیورسٹی جانا بہت مشکل تھا۔

‘یونیورسٹی میں چائلد ڈے کیئر کا کوئی انتظام نہیں اور اسی وجہ سے بچی کو اپنے ساتھ لے جانے کی وجہ سے ڈیوٹی کرنا مشکل بن جاتا تھا اور بچی خود بھی تنگ ہو جاتی تھی ۔’

انہوں نے بتایا کہ چند مہینوں سے ان کی بچی ڈے کیئر میں ہوتی ہے جس کی وجہ سے بہت سے معاملات ٹھیک ہوگئے ہیں ۔

‘اس قسم کے چائلڈ ڈے کئیر مراکز صوبے کے مختلف مقامات پر بنانے چاہیں تاکہ وہ خواتین جو شادی کے بعد خاص کر تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہیں ان کے لیے آسانی ہو۔’

ان سے جب پوچھا گیا کہ پاکستانی معاشرے میں بچی کو کسی اور کے پاس چھوڑنا برا سمجھا جاتا ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ بالکل درست ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو صرف بچوں کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

مہر نے بتایا کہ ان کو بھی گھر میں پہلے یہی کہا جاتا تھا کہ وہ بچی کو مرکز میں چھوڑ کر خود نوکری کے لیے چلی جاتی ہیں لیکن اب ان گھر والوں کی سوچ تبدیل ہوگئی ہے۔

‘اس قسم کے نئے رجحانات سے ہم معاشرے کو تبدیل کر سکتے ہیں کیونکہ کلچر تب ہی تبدیل ہوتا ہے جب کوئی نیا کلچر آ کر پرانی چیزوں کی جگہ لے لے۔ چائلڈ ڈے کیئر ترقی یافتہ ممالک میں زندگی کا نہایت ہی اہم جزو سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں یہ کلچر ابھی نیا ہے اور وقت کے ساتھ لوگوں کے ذہن ایسی چیزوں کو ماننے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔’

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر