انگلینڈ اور ویلز میں جنسی عمل کے دوران تشدد پر پابندی کا بل پیش

’جب لوگ ’رف سیکس‘ کا سنتے ہیں تو وہ بی ڈی ایس ایم کا سوچتے ہیں۔‘

مشہور بیک پیکر گریس میلانے کے ہلاک ہونے کے بعد ان کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے مقدمے کے دوران یہ موقف اپنایا کہ ان کی موکل ’سیکس گیم کے غلط نتیجے‘ میں اتفاقیہ طور پر ہلاک ہوئی ہیں(تصویر: اے ایف پی)

گھریلو تشدد کا نیا قانون جو 2019 کے اختتام پر موخر کر دیا گیا تھا اب برطانوی دارالعوام میں جمعرات کو دوبارہ پیش کیا جائے گا۔

قبل ازیں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی جانب سے پارلیمنٹ کا اجلاس ملتوی ہونے کی وجہ سے یہ بل موخر ہوگیا تھا۔

اس قانون میں ممکنہ طور پر ایسے اقدامات پر بھی پابندی عائد کی جا سکتی ہے جن کے تحت گھریلو تشدد میں ملوث افراد عدالت میں اپنے متاثرین پر جرح کرتے تھے۔

جبکہ کونسلز پر لازمی ہو گا کہ وہ ایسے متاثرین اور ان کے بچوں کی رہائش کا بندوبست بھی کریں۔

اس قانون میں ’رف سیکس‘ کے دفاع پر مبنی قوانین کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ، برطانوی ہوم آفس کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں غور کر رہے ہیں کہ کیسے انگلینڈ اور ویلز میں ’رف سیکس‘ سے متعلق قوانین کا غلط استعمال روکا جا سکے۔

لیکن آخر جارحانہ یا رف سیکس کا دفاع کیا ہے اور اسے کیسے استعمال کیا جاتا ہے اور ان قوانین میں تبدیلی ملزمان، متاثرین اور قانون سازوں کے لیے کیا مطلب رکھتی ہے؟

رف سیکس ڈیفنس کیا ہے؟

نام نہاد رف سیکس ڈیفنس (جو کہ ففٹی شیڈز آف گرے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کا برطانیہ میں گھریلو تشدد کے مقدمات میں بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ اکثر اموات یا شدید نقصان پر منتج ہوتا ہے۔ اس قانون کے تحت بتایا جاتا ہے کہ جنسی عمل کے دوران تشدد کیوں کیا گیا۔

یہ معاملہ حال ہی میں برطانیہ کے ایک ہائی پروفائل قاتل کے مقدمے میں دوبارہ خبروں کی زینت بنا ہے۔ مشہور بیک پیکر گریس میلانے کے ہلاک ہونے کے بعد ان کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے مقدمے کے دوران یہ موقف اپنایا کہ ان کی موکل ’سیکس گیم کے غلط نتیجے‘ میں اتفاقیہ طور پر ہلاک ہوئی ہیں۔ وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ ایسا بی ڈی ایس ایم طرز کے جنسی عمل کے دوران ہوا۔

لوئی پیری ’وی کانٹ کونسینٹ ٹو دس‘ (ہم نے اس کی اجازت نہیں دی) نامی گروپ چلاتی ہیں جو کہ جارحانہ سیکس کے دفاعی قانون کے بارے میں آگاہی پھیلاتا ہے۔ اس گروپ کی بانی فیونا میکنزی ہیں۔

گریس کے قاتل کو بالآخر عمر قید سنا دی گئی لیکن لوئی پیری کا کہنا ہے کہ بعض اوقات اس دفاعی موقف کی وجہ سے سزا میں کمی ہو جاتی ہے۔

لوئی نے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جارحانہ سیکس‘ کا دفاع ’نیگنگ اینڈ شیگنگ کے دفاع‘ جیسا ہی ہے جس میں جیوری کو مردوں کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کو جائز ماننے پر قائل کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ بھی ان کی خواتین پارٹنرز کا رویہ قرار دیا جاتا ہے جو کہ سیکس کے عمل میں کمی کے باعث ہوتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ دفاع قانون میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا لیکن جیوری اکثر اس سے ہمدردی رکھتی ہے کیونکہ وہ ذہنی طور پر اس نظریے سے قربت رکھتی ہے۔ یہ احساس ذمہ داری کو ختم کرتا ہے۔ ’جب لوگ رف سیکس کا سنتے ہیں تو وہ بی ڈی ایس ایم کا سوچتے ہیں۔ جیسے کوئی نرم و نازک ہتھکڑی جس سے وہ اچھے سے واقف ہیں لیکن یہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ہم شدید نقصان دہ اندرونی چوٹوں کے واقعات دیکھ چکے ہیں لیکن ملزمان اس قانون کے استعمال سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘

ایک اور مثال جو اس قسم کے دفاع میں پیش کی جاتی ہے وہ ’بڑے جنسی اعضا‘ کا دفاع ہے جو کہ فلوریڈا میں ایک شخص کی جانب سے استعمال کیا گیا تھا جب 2017 میں انہیں اورل سیکس کے دوران اپنی گرل فرینڈ کے سیکنڈ ڈگری قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

 کیا یہ کوئی نیا مسئلہ ہے؟

برطانیہ میں ’رف سیکس‘ کا کسی مقدمے میں بطور دفاع استعمال کیلی فانو کے قتل کے مقدمے میں 1972 میں استعمال کیا گیا۔ کیلی فانو اپنے پر تشدد ساتھی سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتی تھیں۔ اس دفاعی نکتے کے استعمال کا مطلب تھا کہ ان کا قتل غیر ارادی قتل کے طور پر دیکھا گیا۔

تو یہ ایک نیا مسئلہ نہیں ہے۔ لوئی اور فیونا کا کہنا ہے کہ اس دفاعی نکتے کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ فیونا نے 2018 میں ’وی کانٹ کونسینٹ ٹو دس‘ کی بنیاد رکھی جس کی وجہ اس قانون کے استعمال پر ان کی پریشانی تھی۔ خاص طور پر جب دسمبر 2018 میں نتالی کونولی کے کیس میں اس کا استعمال کیا گیا۔

نتالی کو 2016 میں ان کے پارٹنر نے ان کے گھر پر قتل کر دیا تھا۔ یہ واقعہ ورکسٹرشائر میں پیش آیا تھا۔ وہ رحم سے زیادہ خون بہنے اور 40 مختلف زخموں، اندرونی چوٹوں، صدمے، ایک زخمی آنکھ اور چہرے پر چوٹوں کے بعد ہلاک ہوئی تھیں۔ ان کے پارٹنر نے دعوی کیا کہ یہ ’سیکس گیم کا غلط نتیجہ‘ نکلنے کی وجہ سے ہوا، جس کے بعد انہیں غیر ارادی قتل کا ذمہ دار قرار دے کر تین سال اور آٹھ ماہ کی سزا سنا دی گئی تھی۔

فیونا اس فیصلے پر شدید غصہ تھیں، جس کے بعد انہوں نے ایسی مثالوں کا ریکارڈ رکھنا شروع کر دیا جہاں رف سیکس کا دفاعی قانون استعمال کیا گیا تھا۔

اب اس فہرست میں 60 سے زائد مقدمے شامل ہیں جن میں قاتلوں نے اسی دفاع کا استعمال کیا ہے۔ ان میں سے اکثریت کا قتل برطانیہ میں ہوا ہے لیکن کچھ واقعات بیرون ملک بھی ہوئے جیسے کہ گریس میلانے کا قتل۔

دنیا بھر میں ان واقعات کی تعداد اور بھی زیادہ ہے۔ لوئی پیری کا کہنا ہے کہ وہ برطانیہ سے باہر موجود خواتین کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں تاکہ اس بارے میں اعداد و شمار جمع کیے جا سکیں۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران 18 خواتین کے حوالے سے یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ انہیں مرضی سے کیے جانے والے سیکس کے دوران تشدد سے ہلاک کیا گیا۔ ان میں سے تازہ ترین واقعہ اینا فلورینس ریڈ کا ہے جو اپریل 2019 میں سامنے آیا۔

لوئی کا کہنا ہے کہ ’قاتل اس دفاعی نکتے سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں۔ وکیل اس کا استعمال تجویز نہیں کر سکتے لیکن لوگ اس سے آگاہ ہیں اور وہ اس کی کامیابی سے بھی واقف ہیں۔ مرد ہمیشہ خواتین کو قتل کرتے آئے ہیں اور یہ ان سے جان چھڑانے کا نیا طریقہ ہے۔‘

اس میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

لوئی پیری کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی خاص وجہ نہیں لیکن بیڈ روم میں تشدد کے حوالے سے زیادہ لبرل رویے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

سال 2019 میں سامنے آنے والی بی بی سی کی تحقیق کے مطابق برطانیہ میں 40 سال سے کم عمر ایک تہائی خواتین غیر مطلوبہ طمانچوں، گلا دبانے اور سانس روکنے کے تجربات سے گزر چکی ہیں اور ایسا سب مرضی سے کیے جانے والے سیکس کے دوران ہوا ہے۔ ان میں سے 20 فیصد خواتین کے مطابق وہ اس کے بعد سے خوف زدہ ہیں اور پریشان رہتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لوئی کے مطابق اس معاملے میں ہم پورن فلموں کے کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ یہ ایک کِلک کی دوری پر ہیں اور چھوٹی عمر میں بھی ان تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کا الگورتھم آپ کو مزید پرتشدد مواد کی جانب راستہ دکھاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف پورن سائٹس تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی جنسی تصاویر مل جاتی ہیں۔

’وی کانٹ کونسینٹ ٹو دس‘ کو موصول ہونے والی حالیہ چار قتل کی وارداتوں میں مردوں نے ’پرتشدد پورن‘  دیکھنے اور سیکس کے دوران خاتون کا گلا دبانے کو بھی ایک وجہ قرار دیا۔ ایسا موت سے قبل اور بعد میں دونوں صورتوں میں دیکھا گیا۔

حکومت قانون کیسے بدلے گی؟

کتابی طور پر ’رف سیکس‘ کے دفاعی نکتے کو انگلینڈ اور ویلز میں استعمال میں نہیں لایا جا سکے گا۔ تقریباً 30 سال پہلے جب 1993 میں آر وی براؤن کا ٹیسٹ کیس سامنے آیا جس میں فیصلہ دیا گیا کہ آپ ایسے حالات میں رضامندی ظاہر نہیں کر سکتے جب آپ کو شدید نقصان پہنچنے یا ہلاکت کا خدشہ لاحق ہو۔

کوئی بھی ایسی چیز جو ’مختصر اور غیر سنجیدہ ‘ نوعیت کے زخموں پر مبنی ہو اس پر مرضی ظاہر نہیں کی جا سکتی۔

لوئی کہتی ہیں: ’30 سال سے یہی ہوتا آیا ہے اور سیکس گیمز کے دوران غلط نتائج نکلنے کے دعوے کی بدولت سزا کم ہونے کا امکان ہوتا ہے یا ہلکی سزا دی جاتی جب کہ تشدد اور قتل کی تو سرے سے تفتیش ہی نہیں کی جاتی۔‘

ابھی تک اس قانون کے اہم نکات کو کھلے انداز میں سامنے نہیں لایا گیا لیکن اس میں رکن پارلیمنٹ ہیریٹ ہرمین اور مارک گارنیئر کی تجاویز کو شامل کیا جا سکتا ہے۔

دونوں سیاست دانوں نے تجویز دی ہے کہ آر وی براؤن کے مقدمے کو ایک مثال بنا کر ایسا قانون لایا جائے کہ جب وکلا گھر میں قتل، تشدد، غیر ارادی قتل پر کم سزا کا مشورہ دیں تو ڈائریکٹر آف پبلک پراسکیوشن اس پر نظر ثانی کرے۔

اس قانون میں اضافے کے بعد امکانات ہیں کہ انگلینڈ اور ویلز میں کونسینٹ کے کیسز کو کامیابی سے چلایا جائے گا۔

تنظیم وی کانٹ کونسینٹ ٹو دس بھی چاہتی ہے کہ مجوزہ تجاویز میں گلا دبانے کو ’سنجیدہ نوعیت کے تشدد‘ میں شامل کیا جائے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ