کشمیر میں پیلٹ گن کا استعمال جاری رہے گا: ہائی کورٹ

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ مشتعل ہجوم کی طرف سے تشدد کیے جانے کے پیش نظر پیلٹ گن کا استعمال ناگزیر ہے۔

پیلٹ گن کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کے لیے 2010 سے مستعمل ہے (اے ایف پی)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ نے کشمیر بار ایسوسی ایشن کی پیلٹ گن کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کی مفاد عامہ کی عرضی یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی ہے کہ ’مشتعل ہجوم کی طرف سے تشدد کیے جانے کے پیش نظر پیلٹ گن کا استعمال ناگزیر ہے۔‘

کشمیر بار ایسوسی ایشن نے جولائی 2016 میں مسلح تنظیم حزب المجاہدین سے وابستہ معروف کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد سکیورٹی فورسز کی طرف سے پیلٹ گن کے استعمال سے متاثرہ افراد کی حالت زار دیکھ کر اس مہلک ہتھیار کے استعمال کے خلاف مفاد عامہ کی عرضی دائر کی تھی۔

بعد ازاں بھارتی حکومت نے بھی اس ضمن میں ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا جو اس ہتھیار کا نعم البدل تلاش کرے گی۔ تاہم زمینی صورتحال یہ ہے کہ اس مہلک ہتھیار کا استعمال اب بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔

جسٹس علی محمد ماگرے اور جسٹس دھیرج سنگھ ٹھاکر پر مشتمل بینچ نے بدھ کو مفاد عامہ کی عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا: ’یہ ظاہر ہے کہ جب تک ہجوم کی جانب سے تشدد کیا جائے گا تب تک طاقت (پیلٹ گن) کا استعمال ناگزیر ہے۔‘ 

کشمیر بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر ایڈوکیٹ اعجاز بیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں ابھی تک حکم نامے کی کاپی نہیں ملی ہے اور یہ دستیاب ہوتے ہی آئندہ کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم بار ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو کمیٹی اجلاس میں عدالتی حکم نامے کے متن کا جائزہ لیں گے۔ نظرثانی کی درخواست دائر کرنے پر بھی غور ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واضح رہے کہ بار ایسوسی ایشن کے 76 سالہ علیل صدر ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم گذشتہ برس پانچ اگست سے بند ہیں۔ انہیں نئی دلی کی تہاڑ جیل میں مقید رکھا گیا ہے جہاں ان کی صحت مزید بگڑ گئی ہے۔

پیلٹ گن کی تباہی

کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کے لیے 2010 سے مستعمل پیلٹ گن سے جہاں درجنوں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے وہیں سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان جزوی یا کلی طور پر بینائی سے محروم ہوچکے ہیں جس کے باعث ان کے لیے یہ دنیا ایک ایسا ظلمت کدہ بن گئی ہے کہ جس میں انہیں جینے کی کوئی امید نظر نہیں آتی ہے۔

کشمیر میں پیلٹ گن کے استعمال سے جہاں 19 ماہ کی ننھی حبہ نثار بینائی سے محروم ہوئی وہیں بھارتی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والا ایک مزدور بھی اس ہتھیار کے قہر سے بینائی سے ہی نہیں بلکہ روزگار سے بھی محروم ہو گیا۔

2016 کی ایجی ٹیشن کے دوران ہی سکیورٹی فورسز کی طرف سے پیلٹ گن اور دوسرے ہتھیاروں کے استعمال سے تقریباً 120 احتجاجی ابدی نیند سو گئے۔

دارالحکومت سری نگر میں واقع شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال جہاں بیشتر پیلٹ متاثرین کا علاج و معالجہ کیا جاتا ہے، کے اعداد و شمار کے مطابق 2016 سے سکیورٹی فورسز کی طرف سے پیلٹ گن کے استعمال سے تقریباً 13 سو افراد کلی یا جزوی طور پر بینائی سے محروم ہوئے ہیں۔ ان میں سے 60 افراد کی دونوں آنکھوں میں چھرے لگے ہیں۔

پیلٹ گن کیا ہے؟

پیلٹ گن کا استعمال مشتعل ہجوم کو قابو کرنے کے علاوہ جانوروں کے شکار کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پیلٹ گن کا استعمال اگر پانچ سو گز کی دوری سے کیا جائے تو مہلک ثابت نہیں ہوسکتا ہے لیکن اگر نزدیکی سے اس کا استعمال ہو اور وہ بھی حساس اعضا کو نشانہ بناتے ہوئے کیا جائے تو یہ بہت ضرر رساں ثابت ہوسکتا ہے۔

پیلٹ گن ایک ایسی بندوق ہے جس میں کئی طرح کے کارتوس استعمال ہوتے ہیں۔ یہ کارتوس پانچ سے 12 کی رینج میں ہوتے ہیں۔ ایک پیلٹ گن میں پانچ سو تک چھوٹے فائر بال ہوتے ہیں جنہیں اس گن کے ذریعے انتہائی تیز رفتاری سے چلایا جاتا ہے۔

فائر کے ساتھ ہی کارتوس ہوا میں پھوٹتے ہیں اور چھرے چاروں سمت جاتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا