’باجے بیچ کر گھر کا خرچ چلاتی ہوں، سٹیڈیم کے اندر جانے کے پیسے نہیں‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے شاہ بانو بی بی نے بتایا کہ ’میں کراچی کے علاقے کالا پل کی رہائشی ہوں، اس کام کے ذریعے اپنے گھر کا خرچ چلا لیتی ہوں۔ میں ایک باجا سو روپے کا بیچتی ہوں کیوں نوے روپے کی میری خرید ہے اور باقی دس روسے اپنے بچوں کے لیے لیتی ہوں۔

اگر آپ ایکسپو سینٹر سے نیشنل سٹیڈیم کی طرف جانے والی سڑک پر چلتے ہوئے جائیں تو آپ کو سٹیڈیم کے باہر تپتی دھوپ میں سڑک کنارے بیٹھی ایک خاتون نظر آئیں گی۔ یہ خاتون یہاں سے گزرنے والے افراد سے صدقہ یا بھیک کے پیسے نہیں مانگ رہیں بلکہ محنت مزدوری کرکے پیسے کما رہی ہیں۔

سٹیڈیم کے اندر جانے والے کرکٹ  شائقین اکثر باہر سے رنگ برنگے باجے اور اپنی پسندیدہ ٹیم کی شرٹیں اور ٹوپیاں خرید کر اندر جاتے ہیں۔ سٹیڈیم کے باہر سے یہ چیزیں انہیں سستے داموں میں مل جاتی ہیں جو اکثر دکانوں پر مہنگی ملتی ہیں اور ایک آدھ بار ہی پہننے میں آتی ہیں۔

نیشنل سٹیڈیم کے باہر بیٹھے یہ عارضی دکاندار جن کا کاروبار صرف پی ایس ایل کی روشنیوں کی وجہ سے ہی بحال ہے، ان میں اکثر صرف مرد ہی ہوتے ہیں جو کئی گھنٹوں تک کڑک دھوپ اور تپتی زمین پر بیٹھ کر تھوڑی اجرت کے لیے یہ کام کر پاتے ہیں۔ ان تمام مردوں کے درمیان مردوں جیسی محنت و مزدوری کرنے والی خاتون شاہ بانو بی بی چند سیکںڈز میں ہی مختلف رنگوں کو ملا کر ایک نیا باجا تیار کرنے کا ہنر رکھتی ہیں۔ باقی دکانداروں سے انتہائی کم داموں میں شرٹ اور ٹوپیاں بیچ کر اپنا گھر بھی چلاتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے شاہ بانو بی بی نے بتایا کہ ’میں کراچی کے علاقے کالا پل کی رہائشی ہوں، اس کام کے ذریعے اپنے گھر کا خرچ چلا لیتی ہوں۔ میں ایک باجا سو روپے کا بیچتی ہوں کیوں نوے روپے کی میری خرید ہے اور باقی دس روسے اپنے بچوں کے لیے لیتی ہوں۔‘

ہم نے جب شاہ بانو سے پوچھا کہ کیا وہ سٹیڈیم کے اندر میچ دیکھنے جانا چاہتی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’سٹیڈیم کے اندرجانے کے لیے تو پیسے لگتے ہیں اور ہم غریبوں کے پاس اتنے پیسے کہاں ہیں کہ ٹکٹ خرید کر میچ دیکھ سکیں؟‘

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل