قبائلیوں کو بالآخر جج مل گئے

انضمام کے بعد 116 برس سے نافذ ایف سی آر کے نظام کو ختم کرکے اس کی جگہ پاکستان کے عدالتی نظام کو نافذ کردیا گیا ہے، جس کے تحت اعلیٰ عدالتوں کے دائرہ کار کو قبائلی اضلاع تک توسیع دے دی گئی ہے۔

قبائلی اضلاع کے عام شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ انہیں ایف سی آر جیسے کالے قوانین سے آزادی ملی ہے اور اب وہ عدالت کے ذریعے اپنے حق کے لیے آواز اُٹھا سکتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ضم شدہ قبائلی اضلاع میں تعینات ججوں نے گیارہ مارچ یعنی آج سے باقاعدہ کام شروع کردیا۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقاراحمد سیٹھ نے حال ہی میں خیبر پختونخواہ میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کے لیے ججوں کی تقرریوں اور تعیناتیوں کے احکامات جاری کیے تھے جبکہ ہوم ڈپارٹمنٹ نے 18 سرکاری وکلا کو مختلف قبائلی اضلاع میں بھیج دیا تھا۔

پولیٹیکل ایجنٹوں کے زیر سماعت تمام مقدمات کی اصلی فائلوں کو متعلقہ سیشن ججوں کے حوالے کردیا گیا ہے اور پولیٹیکل انتظامیہ نے اُن تمام افراد کوایک تحریری حکم نامے کے ذریعے خبردار کیا ہے کہ جن لوگوں کے مقدمات پولیٹیکل انتظامیہ کے دفاتر میں زیر سماعت تھے، وہ مقدمے کی پیروی کے لیے متعلقہ عدالتوں سے رجوع کریں۔

علاوہ ازیں پشاور ہائی کورٹ نے بھی قبائلی اضلاع کے حوالے سے تمام فوجداری اور سول مقدمات متعلقہ اضلاع کے ججوں کو منتقل کردیے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ اور تمام قبائلی اضلاع میں ہزاروں کی تعداد میں سول اور فوجداری کے مقدمات زیر سماعت تھے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس عمل سے فرنٹیئر کرائم ریگولیشنز (ایف سی آر) کے تحت سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار قیدیوں کو ریلیف ملے گا، تاہم یہ بات واضح نہیں کہ شکیل آفریدی کو نئے عدالتی نظام سے کوئی رعایت حاصل ہو گی یا نہیں۔

ضلع خیبر پختونخوا کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ سول اور فوجداری مقدمات سمیت شکیل آفریدی کے اہم کیس کو بھی سیشن جج کے دفتر میں منتقل کردیا گیا ہے۔

شکیل آفریدی، القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کی جاسوسی کے کیس کے الزام میں ایف سی آر کے تحت مئی 2011 سے پشاور کی جیل میں قید ہیں۔

اس کے علاوہ ضم شدہ اضلاع میں سب سے بڑاچیلنج وہاں کی جغرافیائی حیثیت بھی ہے جبکہ نئے عدالتی نظام کو قابل عمل بنانے میں بھی بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔

اول تو قبائلی علاقوں میں اراضی ریکارڈ (لینڈ ریکارڈ) موجود نہیں ہے، پھر اراضی سے متعلق جرگوں کے بیشتر فیصلوں میں بھی دعویٰ اور جواب دعویٰ یا گواہی وغیرہ کی تحریری تفصیل موجود نہیں ہے، لہذا بغیر اراضی ریکارڈ کے کسی بھی عدالت کے جج کو فیصلہ کرنے میں مشکل ہوگی۔

دوسری جانب قبائلی اضلاع میں مردوں کی اجارہ داری ہے۔ قبائلی خواتین کو وراثت وغیرہ میں حصہ نہیں دیا جاتا اور اگر کسی عورت نے اپنا حق مانگنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تو یہ ایک قبائلی مرد کے لیے کٹھن اور مشکل امتحان ہوگا۔

گمان کیا جاسکتا ہے کہ سخت رسم و رواج اور پردے کی وجہ سے ان کے خاندان والے خواتین کو عدالت میں پیش نہیں ہونے دیں گے، جس سے آنے والے وقت میں بہت سارے مسائل پیدا ہوں گے۔

قبائلی اضلاع میں مستقل عدالتوں کے قیام تک، عدالتی نظام سے ناواقف قبائل کے لیے شروع میں ایک انتہائی مشکل مرحلہ یہ ہوگا کہ یہ افسران پشاور سمیت قبائلی اضلاع سے متصل شہروں میں مقدمات نمٹائیں گے اور متعلقہ اضلاع میں بیٹھنے کی بجائے اس کے ساتھ منسلک جوڈیشل کمپلیکس میں بیٹھیں گے۔ اس طرح متعلقہ عدالتوں کا اپنے قبائلی اضلاع سے دور کسی دوسرے ضلع سے نظام چلانا نہ صرف عام قبائل پر بہت بڑا بوجھ ثابت ہوگا بلکہ مذکورہ فیصلے میں شامل جرگے کی حاضری یقینی بنانا بھی انتہائی مشکل کام ہوگا۔

قبائلی علاقہ جات کے لیے تیار کردہ نظام عدل کے تحت عدالتی سیٹ اپ پشاور ہائی کورٹ ہی کے زیر انتظام فاٹا میں کام کرے گا۔

تاہم اس وقت تک تمام جوڈیشل افسران، قبائلی اضلاع کے قریبی ضلع سے دفتری امور نمٹائیں  گے اور فاٹا کے اندر کام شروع کرنے میں مزید وقت لگے گا۔

مبصرین کے مطابق مختلف محکموں کی عمارتیں تعمیر کرنے میں پانچ سے دس سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے، البتہ قانونی دائروں میں فاٹا کی شمولیت اس حوالے سے یہ پہلا قدم ہے۔ فاٹا میں نافذ کیے جانے والے نظام عدل کے تحت قاضیوں کو سول اور فوجداری دونوں قسم کے مقدمات میں قبائلی رسومات اور رواج کو مدنظر رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور کوئی بھی متاثرہ پارٹی عدالت میں درخواست دیتے ہوئے کیس میں رواج کی بنیاد پر فیصلہ مانگ سکتی ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے سابق جج یحییٰ زاہد گیلانی نے بتایا کہ ابتدا میں دستاویزی ثبوت نہیں ہوں گے اور زبانی شہادتوں کے ثبوت پر ہی فیصلے کرنے ہوں گے، جس کے باعث زیر التوا فوجداری مقدمات میں مشکلات ہوں گی لیکن ضابطہ فوجداری کی بعض شقیں جن پر زیادہ عمل نہیں ہوتا اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ نیز وہ رسوم و رواج جو قانون سے متصادم نہ ہوں، انہیں بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔

یاد رہے کہ انضمام کے بعد 116 برس سے نافذ ایف سی آر کے نظام کو ختم کرتے ہوئے اس کی جگہ پاکستان کے عدالتی نظام کو نافذ کردیا گیا ہے، جس کے تحت اعلیٰ عدالتوں کے دائرہ کار کو قبائلی اضلاع تک توسیع دے دی گئی ہے۔

قبائلی اضلاع کے لیے اس سلسلے میں تیار کیے گئے مجوزہ ایکٹ کے تحت پشاور ہائی کورٹ کی مشاورت سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کی معاونت کے لیے ایک جرگہ موجود ہوگا، جس کے چار یا اس سے زائد ارکان ہوں گے۔

ضم شدہ اضلاع میں تعینات ہونے والے جوڈیشل افسران کے لیے چار روزہ ٹریننگ پروگرام بھی مکمل کرلیا گیا ہے اور صوبائی حکومت اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر تربیت اور دیگر انتظامات بھی کر رہی ہے تاکہ ان علاقوں میں تعینات افسران کو وہاں کے ماحول کے مطابق مسئلے درپیش نہ ہوں اور وہ سب بہترین طریقے سے اپنی خدمات انجام دے سکیں۔

صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مقامی لوگوں سے عدلیہ کے لیے سٹاف لیا جائے گا اور نئے تعینات ہونے والے زیادہ تر ججوں کا تعلق بھی قبائلی اضلاع سے ہے۔

قبائلی اضلاع کے عام شہریوں کا کہنا ہے کہ ابتداء میں جتنی بھی مشکلات ہوں گی، وہ ان کو برداشت کرسکتے ہیں مگر وہ اس بات پر خوش ہیں کہ انہیں ایف سی آر جیسے کالے قوانین سے آزادی ملی ہے اور اب وہ عدالت کے ذریعے اپنے حق کے لیے آواز اُٹھا سکتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان