کرونا سے متاثر شادی:’آدھے باراتی گھر پر رہ گئے، آدھے ساتھ آئے‘

ایک خاندان نے شادی ہال بند ہونے کے باعث اپنی بیٹی کو 15 منٹ میں رخصت کردیا کیونکہ نہ انہیں قناعت مل سکی اور نہ ہی ان کے مکان میں باراتیوں کے لیے جگہ تھی۔

سندھ حکومت نے کرونا وائرس کے تدارک کے لیے سکولوں، کالجوں اور دیگر سیاسی و سماجی اجتماعات پر بندش لگاتے ہوئے شادی ہالوں پر بھی پابندی عائد کردی ہے جس کے باعث کئی لوگوں کی شادیاں رک گئیں یا پھر کئی افراد اپنے گھروں میں شادیاں کرنے پر مجبور ہوگئے۔

سندھ میں ایک ساتھ کئی شادی ہال بند ہونے کے باعث لوگوں نے مجبوراً گلیوں میں قناعتیں لگا کر شادیاں کیں جس کے باعث کئی علاقوں میں قناعتوں کی بھی کمی ہوگئی۔

ایسے ہی کراچی کے ایک خاندان نے شادی ہال بند ہونے کے باعث اپنی بیٹی کو 15 منٹ میں رخصت کردیا کیونکہ نہ انہیں قناعت مل سکی اور نہ ہی ان کے تین کمروں کے مکان میں باراتیوں کے لیے جگہ تھی۔

دلہن کے والد محمد عرفان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں نے 400 لوگوں کا کھانا بنوایا تھا لیکن آئے صرف  سو افراد ہیں۔ نہ صرف کھانا برباد ہوا ہے بلکہ میری بیٹی کی شادی بھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد عرفان کا مزید کہنا تھا: ’شادی ہال والوں نے ہمارے پیسے واپس نہیں کیے، انہوں نے کہا ہے کہ وہ واپس کردیں گے لیکن عین وقت پر گھر میں بیٹی کی شادی کے انتظامات کرنے کے لیے مجھے الگ سے ہزاروں روپے لگانے پڑے۔‘

دلہن کی والدہ شگفتہ بی بی پچھلے ایک سال سے اپنی بیٹی کی شادی کی تیاریاں کررہی تھیں۔ انہوں نے بھاری دل کے ساتھ اپنی بیٹی کو 15 منٹ میں رخصت کیا۔

ہم نے جب ان سے پوچھا کہ رخصتی اتنی جلدی کیوں ہوئی تو ان کا کہنا تھا: ’مجھے آدھے گھنٹے پہلے معلوم ہوا کہ میری بیٹی کی رخصتی گھر سے ہوگی، مجبوراً ہم نے کئی مہمانوں کو شرکت کرنے سے منع کردیا کیونکہ ہمارا گھر بہت چھوٹا ہے۔ اتنی جگہ ہی نہیں تھی کہ لڑکے والوں کو بیٹھا کے کھانا کھلا سکوں۔ باراتی جگہ کہ تنگی کے باعث ناراض ہو رہے تھے اس لیے ہمیں رخصتی جلد بازی میں کرنی پڑی۔‘

اس حوالے سے ہم نے دولہا کے تاثرات جانے کی کوشش کی تو وہ کافی کنفیوز نظر آرہے تھے۔ رخصتی کے وقت گاڑی میں بیٹھنے سے چند لمحات قبل انہوں نے ہمیں بتایا:’آدھے باراتی یہاں ہیں اور آدھے باراتی گھر پر ہیں۔ ہم لڑکی والوں کے گھر سے کھانا لے جا کے اپنے گھر پر مہمانوں کو کھلائیں گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا