پشاور: وہ جوڑا جو ساتھ نشہ کرتا ہے

غربت اور  نشے کی لت میں مبتلا سیف الدین اور ان کی اہلیہ کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے لیکن تینوں ہی فوت ہوگئے۔ اب میاں بیوی   بے گھر ہیں اور کھلے آسمان کے نیچے گزارا  کرتے ہیں۔

دونوں نوجوان اور میاں بیوی بھی لیکن دونوں ہیروئن جیسے جان لیوا نشے کے عادی بھی۔

یہ کہانی ہے پشاور کے مشہور کارخانو مارکیٹ کے آس پاس رہنے والے ایک نشے کے عادی نوجوان جوڑے کی جن کی عمریں بیس سے پچیس سال کے لگ بھگ ہوں گی۔

غربت اور نشے کی لت میں مبتلا سیف الدین اور ان کی اہلیہ کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے لیکن تینوں ہی فوت ہوگئے۔ اب میاں بیوی بے گھر ہیں اور کھلے آسمان کے نیچے گزارا کرتے ہیں۔

نجمہ (فرضی نام) کا دعویٰ ہے کہ ان کی نشے کی عادت کی وجہ ان کے شوہر ہیں کیونکہ وہ نشہ چھوڑنے کےلیے آمادہ نہیں تھے جس کی وجہ سے وہ بھی عادی ہوگئیں۔

پچیس سالہ سیف الدین کے مطابق وہ بجپن سے ہی بری صحبت کا شکار ہوگئے اور جس وقت ان کی شادی ہورہی تھی اس وقت تک وہ نشے کی لعنت میں پوری طرح گرفتار ہوچکے تھے۔

ان کی شادی نجمہ سے چار سال پہلے ہوئی۔  شادی کے بعد تین سال تک نجمہ مسلسل اس کوشش میں رہیں کہ ان کے شوہر کسی طرح ہیروئن کی لت سے دور ہوجائیں لیکن شاید انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن وہ بھی اس کا شکار ہوجائیں گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نجمہ کے بقول: ’میرا پاؤں ٹوٹ گیا جس سے میں بڑی تکلیف میں تھی اور درد بھی مسلسل ہورہا تھا۔ پھر ایک دن میں نے بھی کچھ کش لگائے لیکن یہ وہ وقت تھا جب میں پوری طرح مایوس ہوچکی تھی کہ اب میرا شوہر کسی صورت نشہ چھوڑنے کےلیے تیار نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے وہ اپنے شوہر کی نشے کی عادت چھوڑوانے کےلیے ان کو ہسپتال میں بھی داخل کرچکی تھی لیکن بجائے اس کے کہ اس سے کچھ فرق پڑتا وہ پہلے سے بھی بڑھ کر منشیات کا استعمال کرنے لگے۔

دونوں میاں بیوی آج کل کارخانو مارکیٹ میں سڑک کے کنارے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

سیف الدین کارخانو مارکیٹ میں شیپمو بیچنے کا کام کرتے ہیں اور روز انہ تقربناً تین سے چار سو کماتے ہیں جس سے وہ اپنےاوربیوی کےلیے نشہ خریدتے ہیں۔

ان کے مطابق: ’میں نے یہ کبھی نہیں چاہا کہ  میری بیوی بھی نشہ کرے لیکن وہ مجھے اکثر اوقات دھمکیاں دیتی تھیں کہ اگر تم نشہ نہیں چھوڑو گے تو ایک دن میں بھی یہ کام شروع کردوں گی لیکن میں ان کی باتوں کو مذاق سمجھتا تھا تاہم مجھے یہ اندازہ نہیں ہوا کہ ایک دن وہ واقعی نشئی بن جائیگی۔‘

نجمہ نے کہا کہ وہ ٹھیک ہونا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی ان کا علاج کروا دے کیونکہ ان کے پاس خود علاج کے لیے وسائل نہیں۔ 

کارخانو مارکیٹ پشاور میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کا سب سے بڑا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی سڑک کے ایک کونے میں کھلے عام نشہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ایک اندازے کے مطابق تقربناً ایک ہزار کے لگ بھگ عادی افراد قریبی علاقوں میں کھلے آسمان تلے یا پلوں کے نیچے رہتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 67 لاکھ افراد مختلف قسم کے نشوں کے عادی ہیں۔  

پشاور میں یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کی طرف سے حال ہی میں ’آئی ایم والنٹیئر‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی ہے جس کا بنیادی مقصد منشیات کے عادی افراد کی بحالی ہے۔

یہ تنظیم اپنی مدد آپ کے تحت کام کررہی ہے جبکہ انہیں کسی ادارے کی طرف سے کوئی معاونت بھی حاصل نہیں بلکہ تنظیم کے طلبہ اپنے جیب کے پئیسے کاٹ کر منشیات استعمال کرنے والے افراد کی خدمت کررہے ہیں۔

تنظیم کے سربراہ اور نجی کالج کے پروفیسر شہزاد حنیف کا کہنا ہے کہ پشاورمیں ایک محتاط اندازے کے مطابق چار ہزار کے لک بھگ افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں جن میں اکثریت ان کی ہے جو ہیروئن یا آئس جیسا جان لیوا نشہ کرتے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے عادی افراد میں اب کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوان طلبہ و طالبات بھی شامل ہوگئے ہیں جن میں بیشتر آئس کا نشہ کرتے ہیں۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان