’ملا عمر امریکی اڈے سے تین میل دور قیام پذیر تھے‘

ایک مرتبہ امریکیوں نے اس مکان کی تلاشی بھی لی جہاں ملا عمر موجود تھے لیکن وہ انہیں خفیہ کمرے میں نہیں ڈھونڈ پائے، نئی کتاب میں انکشاف۔

ملا عمر کی ایک آنکھ روسیوں کےخلاف لڑتے ہوئے ضائع ہو گئی تھی (تصویر: اے ایف پی)

 افغان طالبان کے بانی رہنما ملا محمد عمر کے بارے میں ایک نئی کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں ایک امریکی فوجی اڈے سے تین میل کی دوری پر زابل صوبے میں رہائش پذیر رہے تھے۔ ایک مرتبہ امریکیوں نے اس مکان کی تلاشی بھی لی جہاں وہ موجود تھے لیکن وہ انہیں خفیہ کمرے میں نہیں ڈھونڈ پائے تھے۔

ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی صحافی بیٹی ڈیم کی نئی کتاب ‘دی سیکریٹ لائف آف ملا عمر‘ میں کہا گیا ہے کہ عمومی طور پر امریکی حکام یہ سمجھتے رہے تھے کہ وہ پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ امریکہ نے ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کر رکھی تھی۔

کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملا محمد عمر نے 2001 میں اختیارات اپنے نائبین کو دے دیے تھے تاہم وہ انہیں تمام عمر اپنا رہنما مانتے رہے۔

تاہم افغان صدر کے ترجمان ہارون چکنسری نے ایک ٹیویٹ میں اسے ایک جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ ملا محمد عمر نے زندگی پاکستان میں گزاری اور وہیں چل بسے۔ 

صحافی بیٹی ڈیم نے لکھا ہے کہ ملا عمر افغانستان میں اپنے آبائی صوبے زابل میں امریکہ کے ایک اہم فوجی اڈے فارورڈ آپریٹنگ بیس ولورین سے تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے جہاں امریکی نیوی سیلز اور برطانوی ایس اے ایس کے فوجی تعینات تھے۔

بیٹی ڈیم نے اپنی کتاب کی تحقیق میں پانچ سال صرف کیے جس کے دوران انھوں نے متعدد طالبان رہنماؤں اور ارکان سے گفتگو کی۔ انہوں نے جبار عمری سے بھی گفتگو کی جنہوں نے سنہ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے اس وقت ملا عمر کے محافظ کے طور پر خدمت انجام دی جب وہ زیر زمین چلے گئے تھے۔

صحافی بیٹی ڈیم لکھتی ہیں کہ جبار عمری کے مطابق انھوں نے ملا عمر کو 2013 میں ان کے انتقال تک پناہ دی تھی۔ 

صحافی کے مطابق انھیں بتایا گیا کہ ملا محمد عمر خبروں کے لیے بی بی سی کی پشتو سروس سنا کرتے تھے۔ کتاب میں مزید کہا گیا کہ طالبان رہنما تنہا زندگی گزارتے تھے لیکن ایک پرانے نوکیا فون پر اپنے پیغام ریکارڈ کرتے تھے۔ اپنے محافظ اس کتاب میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ طالبان کی جانب سے کیے گئے متعدد دعووں کے برعکس، ملا محمد عمر اپنی تنظیم کو اپنی جائے پناہ سے چلانے میں کامیاب نہ تھے۔ البتہ یہ کہا گیا کہ انھی کی منظوری سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے دفتر کا قیام ہوا۔

گذشتہ دو ہفتوں سے امریکی اور طالبان حکام کے مابین اسی دفتر میں افغانستان میں امن قائم کرنے کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں۔

گذشتہ ماہ ولندیزی زبان میں شائع ہونے والی کتاب بہت جلد اب انگریزی زبان میں بھی شائع ہونے والی ہے۔

کتاب میں شائع ہونے والے مزید انکشافات کے مطابق دسمبر 2001 میں ملا محمد عمر نے طالبان کے انتظامی امور کی ذمہ داری اپنے وزیر دفاع ملا عبید اللہ کو سونپ دی تھی۔ تلاشی سے بچنے کے لیے ملا عمر کئی بار کھیتی باڑی کے لیے بنائی گئی سرنگوں میں چھپ جاتے تھے۔

ملا عمر کی موت اپریل 2013 میں ہوئی اور انھیں بغیر نشان والی ایک قبر میں دفن کر دیا گیا تھا۔

ملا محمد عمر کون تھے؟

افغانستان میں سویت جارحیت کے دور میں ملا محمد عمر مزاحمت کرنے والوں میں عام سے کمانڈر تھے۔

اس کے بعد 1994 میں سابق مجاہدین کے خلاف قندہار سے اٹھنے والی تحریک کی انھوں نے سربراہی کی اور اسی تحریک نے آگے چل کر طالبان کی شکل لی جس نے دو سال بعد 1996 میں کابل پر قبضہ کر لیا۔

ملا محمد عمر اور اسامہ بن لادن نے طالبان کا نظام سنبھال رکھا تھا لیکن نائن الیون کے بعد وہ تتر بتر ہو گئے اور امریکی افواج سے بچنے کے لیے مختلف مقامات پر روپوش رہے۔

مئی 2011 میں امریکی نیوی سیلز کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی موت کے بعد بھی ملا محمد عمر امریکی افواج کے ہاتھ نہ آئے۔

کئی سینئیر امریکی رہنماؤں نے شک کا اظہار کیا کہ انھوں نے پاکستان میں پناہ لے رکھی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ