کیا کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا باعث تفتان بنا؟

بلوچستان حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ کرونا وائرس کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم شہری اور تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ حکومت صرف زبانی جمع خرچ سے کام لے رہی ہے اور جو غفلت برتی گئی ہے، اس کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔

9 مارچ کو پی ڈی ایم اے بلوچستان کے اہلکار کوئٹہ کے مضافات میں تفتان کے راستے ایران  سے  آنے والے زائرین کے لیے بنے ایک کیمپ میں جراثیم کش سپرے کر رہے ہیں (اے ایف پی)  

ایران میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد فروری میں بلوچستان نے ایران سے متصل سرحد کو تفتان کے مقام پر بند کردیا، آمد ورفت معطل کردی گئی اور ایران سے آنے والے زائرین سمیت دیگر افراد کو سرحد پر ہی قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق مقدس مقامات کی زیارت کے لیے چھ ہزار زائرین بلوچستان کے راستے ایران گئے تھے۔ ایران کے شہر قُم سے کرونا وائرس پھیلا، جہاں سب سے زیادہ زائرین زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ 

حکومت پر تفتان میں ناقص انتظامات اور مقیم افراد کی طرف سے جاری کردہ ویڈیوز کے بعد تنقید بھی ہو رہی ہے کہ وہ کرونا وائرس کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے۔

حکومت بلوچستان اب اعتراف کررہی ہے کہ تفتان قرنطینہ میں رکھے جانے والے افراد کی صرف سکریننگ کی گئی جس کے لیے انہوں نے وفاتی حکومت کے ایس او پیز پر عمل کیا۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ‏وفاقی حکومت نے بلوچستان حکومت کے ساتھ جن ایس او پیز کا فیصلہ کیا اس میں تمام افراد کی صرف سکریننگ شامل تھی جبکہ خون کے ٹیسٹ صرف مشتبہ کیسز کے لیے ہی کرنے تھے۔

لیاقت شاہوانی نے مزید کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو وفاقی حکومت روز اول ہی تفتان قرنطینہ میں موبائل لیبارٹری کی سہولت فراہم کرتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے اطلاعات مرتضیٰ وہاب نے سندھ میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے کی وجہ تفتان میں ناکافی سہولیات کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں کرونا وائرس کے جتنے کیسز سامنے آرہے ہیں وہ سب تفتان میں قرنطینہ میں وقت گزار کر آئے ہیں۔

اس بات کا اعتراف وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان بھی کررہے ہیں کہ تفتان میں ایران کے کرونا وائرس سے متاثرہ علاقوں سے آنے والے زائرین کو الگ الگ رکھنا ممکن نہیں تھا اور انہوں نے تجویز دی تھی کہ تفتان میں زائرین کو زیادہ دیر تک رکھنا کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بنے گا۔

جام کمال نے میڈیا کو بتایا: ’ہم سمجھتے تھے کہ زائرین کی بڑی تعداد میں تفتان آمد کے باعث کرونا وائرس کے وائرل ہونے کے چانسز زیادہ ہیں۔‘

معروف تجزیہ نگار اور حکومتی اقدامات پر نظر رکھنے والے لکھاری راحت ملک سمجھتے ہیں کہ کرونا وائرس کے حوالے سے بہت سی چیزوں کو از سر نو سمجھنے کی ضرورت ہے لیکن اس کا وقت گزر چکا ہے۔ 

راحت ملک کے مطابق جب کرونا وائرس چین سے ایران آگیا تو اس وقت بھی سوال اٹھایا گیا تھا کہ زائرین کے نقل و حمل کے معاملات کو کنٹرول کیا جائے اور کسی کو بھی ٹیسٹ کے بغیر آنے نہیں دیا جائے۔ انہوں نے کہا: ’میں نے تجویز دی ہے کہ زائرین کو تفتان سے نکلنے کے بعد کوئٹہ میں ٹھہرانے کی بجائے ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کیا جائے۔‘

راحت ملک نے بتایا کہ ہوا یہ کہ تفتان میں ایران سے آنے والے افراد کو درجہ حرارت چیک کرنے والے ایک روایتی ڈیٹیکٹر سے چیک کیا گیا اور جن کا درجہ حرارت معمول کے مطابق تھا انہیں جانے دیا گیا۔

ان کے مطابق: ’ایک ٹیکنیکل چیز یہاں یہ ہے کہ اگر ایک شخص کرونا وائرس کا کیریئر ہے تو وہ سکریننگ سے قبل پیراسٹامول یا پیناڈول کی گولی لے لے تو اس کا درجہ حرارت کم ہوجائے گا اور ڈیٹیکٹر اسے کلیئر کر دے گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری نہیں کہ جو شخص کرونا وائرس سے متاثر ہو اسے بخار بھی ہو۔‘

راحت ملک کے بقول: ’بحیثیت شہری ہم حکومت بلوچستان سے ان سوالوں کا جواب مانگنے کا حق رکھتے ہیں کہ جب تفتان میں قرنطینہ قائم کیا گیا تو حکومت کے پاس کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے لیے کتنی کٹس موجود تھیں اور کتنی مزید کٹس خریدی گئیں؟ ایک کٹ کے ذریعے کتنے ٹیسٹ ممکن تھے اور تفتان کو کتنی کٹس مہیا کی گئیں۔‘ 

دوسری جانب سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی حکومت کو تنقید کا سامنا ہے اور شہری حکومت سے تفتان میں قرنطینہ اور کرونا وائرس کے مریضوں میں اضافے پر سوالات کررہے ہیں۔ 

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور رکن صوبائی اسمبلی نواب اسلم رئیسانی نے ایک ویڈیو ٹوئٹر پر شیئر کی جس میں تفتان میں قرنطینہ کی خستہ حالی نظر آتی ہے۔ انہوں نے ویڈیو کے ساتھ لکھا: ’قرنطینہ کا پاکستانی سٹائل، بد ترین۔‘

بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کی ٹویٹ کے جواب میں ایک صارف نے کہا کہ سکھر میں جن زائرین کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا وہ سب تفتان سے آئے ہیں۔

ایک اور صارف عبدالعلی خان کہتے ہیں کہ ’بلوچستان میں محکمہ صحت اور بلوچستان کے ڈاکٹرز کی کارکردگی صفر ہے۔‘

ایک اور صارف نے لیاقت شاہوانی سے سوال کیا: ’آپ کی حکومت کس طرح 6400 لوگوں کی سکریننگ کرسکتی ہے؟ آپ کی موبائل میڈیکل وین کے پاس صرف 50 ٹیسٹ کٹس موجود ہیں۔‘

تجزیہ نگار راحت ملک سمجھتے ہیں کہ چونکہ صحت کی سہولیات کے حوالے سے بلوچستان تیسرے درجے کا صوبہ ہے تو اگر یہ وائرس یہاں پھیل گیا جس کا خدشہ موجود ہے تو اس کے انتہائی بھیانک نتائج نکلیں گے۔

یاد رہے کہ اپوزیشن رہنما بھی حکومت کو اس حوالے سے تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن رہنما ثںا اللہ بلوچ نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’تفتان سے سکھر پہنچنے والے مسافروں میں سے 50 میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوگئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ثنا بلوچ کے مطابق، ’تفتان خیمہ بستی ملک میں کرونا وائرس پھیلانے کا سبب بن گئی۔ اسلام آباد حکومت کی مجرمانہ خاموشی اور بلوچستان حکومت کی غلط منصوبہ بندی کے باعث کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔‘

اس حوالے سے اپوزیشن رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ زیرے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کی غفلت کے باعث کرونا وائرس کوئٹہ تک آگیا ہے۔ ’ہم نے فروری کے مہینے میں ایران میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔‘

نصراللہ زیرے کے مطابق صورت حال یہ ہے کہ بلوچستان حکومت کے پاس کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے لیے کٹس تک موجود نہیں اور حکومت وفاق سے مطالبہ کر رہی ہے کہ کٹس فراہم کی جائیں۔

واضح رہے کہ کوئٹہ میں کرونا وائرس سے متاثرہ دس مریض ہیں، تاہم اس میں بھی حکومتی ترجمان اور بیوروکریسی کے اعداد وشمار میں تضاد ہے۔

دوسری جانب افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد چمن کو بھی کرونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر بند کر دیا گیا ہے۔ 

بلوچستان کی ایران کے ساتھ طویل سرحد ہے اور غیر روایتی راستوں سے انسانی سمگلنگ اور ایرانی تیل کا کاروبار بھی ہوتا ہے۔ ان راستوں سے بھی ایران سے آنے والے افراد کی غیر قانونی نقل و حمل جاری ہے۔

شہری کہتے ہیں کہ جہاں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث خوف کا ماحول ہے وہاں بلوچستان حکومت نے سرکاری دفاتر میں شہریوں کے داخلے پر پابندی لگا کر مزید سنسنی پھیلا دی ہے۔ 

حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ کرونا وائرس کو روکنے کی کوشش کی کر رہی ہے تاہم شہری اور تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ حکومت صرف زبانی جمع خرچ سے کام لے رہی ہے اور جو غفلت برتی گئی ہے اس کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان