کرونا: گھر میں رہنے کی اپیلوں کے باوجود پاکستانیوں کی وہی ڈگر

کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے انسانوں کے درمیان فاصلے بڑھانے یعنی سوشل ڈسٹنسنگ (Social Distancing) کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے، لیکن اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر شہروں کے باسی کھلے عام باہر گھوم رہے ہیں۔

پاکستان میں مہلک کرونا وائرس کی وبا کے باعث تقریباً 250 سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔

کرونا وائرس (کووڈ 19) کی وبا پر قابو پانے کے لیے انسانوں کے درمیان فاصلے بڑھانے یعنی سوشل ڈسٹنسنگ (Social Distancing) کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔

وبائی امراض کے ماہرین کرونا سے بچنے کے لیے مصافحہ نہ کرنے، بغل گیر نہ ہونے اور انسانوں کو ایک دوسرے سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

ماہرین کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کو قرنطینہ میں رکھنے کے علاوہ صحت مند لوگوں کو بھی غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نکلنے اور لوگوں سے گھلنے ملنے سے پرہیز کی ہدایت کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں کرونا سے متاثر ہونے والے اکثر علاقوں کو مکمل یا جزوی طور پر انسانی آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ یہ قدم سب سے پہلے چین میں کرونا کی جائے پیدائش ووہان شہر میں اٹھایا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرونا سے متاثر ہونے والے ممالک میں عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جس کے باعث سکول، کالج، یونیورسٹیاں اور دوسرے تعلیمی ادارے، مساجد، گرجا گھر، سینیما ہالز، تھئیٹر، بس اڈے، ریلوے سٹیشنز اور ایئر پورٹس بند پڑے ہیں۔

کرونا وائرس کی وبا سے متاثر ہونے والے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی انسانی رابطوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے ملک کے تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔ حکومتی اہلکاروں کے علاوہ طبی ماہرین لوگوں کو عوامی رابطے کم کرنے کی ہدایت کر رہے ہیں جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تمام بڑے پارک بند کر دیے گئے ہیں۔

انسانی رابطوں کو کم کرنے سے متعلق میڈیا پر بڑی مہم اور اپیلوں کے باوجود اسلام آباد اور اس کے گردو نواح کے علاقوں میں لوگوں کی بھیڑ  دیکھی جا سکتی ہے اور بس اڈوں، شاپنگ مالز اور بازاروں میں اب بھی لوگ بڑی تعداد میں سارا دن موجود رہتے ہیں اور ہاتھ ملانے سے بھی کوئی گریز نہیں کر رہا۔

اگرچہ بعض لوگ چہروں کو فیس ماسک سے ڈھانپ کر گھروں سے نکلتے ہیں، تاہم دیگر احتیاطوں پر عمل کرتے نظر نہیں آتے۔

رابطہ کم کرنے سے کیا مراد ہے؟

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق: جب کوئی صحت مند شخص لگاتار 15 منٹ تک کووڈ 19 وائرس کے مریض یا کیرئیر سے چھ فٹ (3 میٹر) سے کم کی دوری پر موجود ہو تو انہیں مہلک وائرس متاثر کر سکتا ہے۔

وبائی امراض کے ماہرین اس منطق کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کرونا کے مریض یا کیرئیر کے منہ اور ناک سے وائرس چھینک یا کھانسی کی صورت میں نکلتا ہے اور اس شخص سے تین میٹر (یا چھ فٹ) کی دوری تک گرتا ہے اور اتنے فاصلے میں موجود دیگر انسانوں میں یہ وائرس منتقل ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

 ماہرین کے مطابق چونکہ کرونا وائرس کا مریض عام طور پر زکام میں مبتلا ہوتا ہے، اس لیے مریض کے 15 منٹ میں ایک سے دو مرتبہ چھینکنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

تاہم بعض ماہرین صحت مند افراد کے لیے کرونا وائرس سے متاثرہ شخص کے پاس پانچ منٹ تک کی موجودگی کو خطرناک قرار دیتے ہیں۔

امرکہ میں مقیم وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر سعد بن عمر کے خیال میں کرونا وائرس سے بچنے کا واحد حل اس کی روک تھام ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’یہ وائرس اتنی تیزی سے پھیلتا ہے کہ اس سے متاثرہ لوگوں کا علاج کرنا بہت مشکل ہے، بلکہ ناممکنات میں سے ہے، خصوصاً پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وائرس کی روک تھام کے لیے عوامی رابطوں کو کم کرنا بہت ضروری ہے۔ لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ زیادہ سے زیادہ کم کر دیا جائے، یہی طریقہ ہے کہ ہم کرونا وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روک سکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا