’پاکستان میں مساجد پر پابندی جیسے سخت اقدامات ممکن نہیں‘

کرونا وبا کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے کئی مسلم ملکوں نے مساجد میں نماز پر عارضی پابندی لگا دی ہے لیکن پاکستان میں علما نے اس قدم کو رد کر دیا ہے۔

پاکستان میں فی الحال صورت حال اتنی خراب نہیں کہ مساجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی لگائی جائے: ڈاکٹر قبلہ ایاز (اے ایف پی)

دنیا کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لینے والی مہلک کرونا (کووڈ 19) وائرس کی وبا کو روکنے کے غرض سے کئی مسلمان ملکوں میں مساجد کے اندر نماز کی ادائیگی پر عارضی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

مساجد میں نماز کی پابندی کا مقصد لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ وبائی امراض کے ماہرین معاشرتی دوری (سوشل ڈِسٹنسنگ) کو کرونا وائرس کی وبا کو روکنے کا واحد موثر ذریعہ قرار دیتے ہیں۔

لاہور کے شوکت خانم کینسر ہسپتال سے منسلک وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سمعیہ نظام الدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: معاشرتی دوری کی طرف پہلا قدم لوگوں کو کہیں بھی اکٹھا ہونے سے روکنا ہے، یعنیٰ عوامی اجتماعات کی حوصلہ شکنی۔

معاشرتی دوری کے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کرونا وبا سے متاثرہ کئی مسلمان ملکوں میں دوسرے اقدامات کے علاوہ مساجد بھی عارضی طور پر بند کر دی گئی ہیں تاکہ لوگوں کو حتی لامکان ایک دوسرے سے دور رکھا جا سکے۔

جن مسلم ملکوں میں مساجد میں نماز پرعارضی پابندی عائد کی گئی ہے ان میں کویت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، مراکش، اومان اور ایران وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان کی صورت حال

پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے معاشرتی دوری کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔ تاہم فی الحال مساجد میں نماز کی ادائیگی پرعارضی پابندی لگانے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ البتہ اس سلسلے میں عوام کو کچھ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ابتدائی طور پرحکومت نے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور مذہبی ہم آہنگی  نورالحق قادری اور چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز پر مشتمل دو رکنی کمیٹی کو علمائے اکرام سے مشورے کا ٹاسک دیا ہے۔

کمیٹی نے ملک کے جید علما سے ملاقاتیں کیں اور چند روز قبل پاکستان کے جید علما پر مشتمل علما کونسل نے مساجد میں نماز کی ادائیگی سے متعلق ضابطہ اخلاق یا ہدایات کا اعلان کیا۔

اس ضابطہ اخلاق میں عوام کے لیے وضو، سنت اور نفل نمازیں گھروں پر ادا کرنے، مساجد میں صفوں اور نمازیوں کے درمیان فاصلہ زیادہ رکھنے، نماز ننگی زمین یا فرش پر ادا کرنے اور ہر نماز کے بعد فرش کو صابن سے دھونے، بزرگ اور بیمار نمازیوں کو مساجد نہ آنے، مساجد میں مصافحے یا معانقے سے گریز کرنے اور نماز جمعہ میں مختصر خطبات اور قرآنی آیات کی تلاوت کی ہدایات شامل ہیں۔

پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے صدر ڈاکٹرافضل میاں کے مطابق: 'اس وقت ضرورت ہے کہ ہم عوام میں آگاہی پھیلائیں کہ کرونا وائرس کی روک تھام کیسے ممکن ہے۔'

پاکستان میں مساجد پر پابندی کیوں نہیں؟

پاکستان میں کرونا وائرس کے متاثر کی تعداد 300 سے تجاوز کر گئی ہے اور اس میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں کرونا وائرس کی وجہ سے بدھ تک دو اموات بھی ہو گئی ہیں۔

دوسری طرف عالمی ادارہ صحت کے مطابق سعودی عرب میں کرونا وائرس سے متاثر افراد کی تعداد بدھ تک 238 جبکہ کویت اور متحدہ عرب امارات میں بالاترتیب تعداد 142 اور 113 ہے۔

پاکستان کی نسبت کرونا وائرس سے کم متاثر ہونے کے باوجود سعودی عرب اور یو اے ای جیسے مسلم ملکوں نے مساجد میں نماز کی ادائیگی پر عارضی پابندی عائد کی ہے۔

تاہم پاکستان میں کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود مساجد کو بند کرنے کے عمل کو مزاحمت کا سامنا ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومتی کمیٹی نے علمائے اکرام سے مساجد میں نماز کی عارضی پابندی لگانے سے متعلق گفتگو کی۔ تاہم علما نے اس اقدام کو رد کر دیا۔

حکومتی کمیٹی کے رکن اور چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: پاکستان میں فی الحال صورت حال اتنی خراب نہیں کہ مساجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی لگائی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں مساجد پر پابندی جیسے سخت اقدامات کرنا ممکن بھی نہیں، صورت حال کے مزید خراب ہونے کی صورت میں لوگ خود اپنے اوپر یہ پابندی عائد کر دیں گے۔

ڈاکٹر افضل میاں کا کہنا تھا: مساجد پر پابندی سے معاشرے میں خوف کی فضا پھیل سکتی ہے، جو ایسے حالات میں خطرناک نتائج کی حامل ہو گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ 'ان ملکوں میں غیر ملکیوں کی آمدورفت بہت زیادہ ہے لہٰذا ان کے لیے مساجد کا بند کرنا لازمی ہو گیا تھا۔'

ڈاکٹر افضل میاں نے ڈاکٹر قبلہ ایاز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صورت حال اتنی خراب نہیں کہ مساجد کو ہی بند کر دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو صرف وہ اقدامات کرنے چاہییں جن پر عمل عام پاکستانیوں کے لیے ممکن ہوں۔

عالم دین مفتی تقی عثمانی کے مطابق مسلمان فقہ کے ایسے فتوے موجود ہیں جن کے تحت وبا کی صورت میں مساجد میں نماز پنجگانہ کی ادائیگی پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو کسی وبا کی صورت میں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے لیکن مساجد میں نماز کی ادائیگی کی ممانعت نہیں کی جا سکتی۔

دوسری جانب، مذہب اسلام پر تحقیق کرنے والے ادارے الموارد پاکستان کے چیئرمین ساجد حمید کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا ایک سنگین مسئلہ ہے اور اگر ضرورت پڑے تو مساجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ رسول کریم محمد کے زمانے میں تیز بارش کی صورت میں اذان میں نماز اپنے اپنے رہنے والی جگہوں پر ادا کرنے کے الفاظ کا اضافہ کر دیا جاتا تھا۔ اسی طرح جمعے کو عید پڑنے کی صورت میں مسلمان نمازعید مساجد اور نماز جمعہ اپنے اپنے گھروں میں ادا کرتے تھے۔

ساجد حمید نے مزید کہا کہ انسانی جان بچانے کی خاطر مذہب اسلام بعض حرام کاموں کو بھی جائز قرار دیتا ہے۔

’موجودہ صورت حال میں ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ احتیاط برتی جائے اور حکومت کو اس سلسلے میں سستی نہیں برتنا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مساجد میں نماز ادا کرنے والوں کو علما کونسل کی ہدایات پر سختی سے عمل کرنا چاہیے تاکہ اس مہلک وبا کے نقصانات اور پھیلاؤ کو کم سے کم کیا جا سکے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت