میل ملاپ پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلنے کی بڑی وجہ

کرونا وائرس کے شکار تین پاکستانیوں کے واقعات۔ کیسے وہ خود کووڈ19 کے مرض میں مبتلا ہوئے اور اردگرد لوگوں کو بھی متاثر کیا۔

طبی ماہرین کرونا وائرس سے بچنے کے لیے معاشرتی دوری اور وائرس سے متاثر ہونے والوں کو قرنطینہ میں ڈالا جانا ضروری قرار دیتے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 700 کے ہندسے کو چھو رہی ہے اور اب تک تین اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے تین متاثرہ افراد کے کیسز پر نظر ڈال کر یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں یہ کیوں اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے؟ ان تین میں سے دو واقعات میں بیرون ملک سے آئے افراد وائس پاکستان لائے اور خود متاثر ہونے کے علاوہ انہوں نے اپنے قریبی عزیزوں کو بھی وائرس منتقل کیا۔ ایک واقعے میں شبہ ہے کہ بس میں ایک کھانسے والے شخص نے دوسروں کو بیمار کیا۔

پاکستانی معاشرے میں میل ملاپ پر بہت زور رہتا ہے اور یہ وائرس اسی وجہ سے پھیل رہا ہے۔

ہم ذیل میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے چند افراد کا ذکر کریں گے، جن کے واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ وائرس کس تیزی سے اپنے کیریئر(جس انسان کے جسم میں وائرس موجود ہو) سے صحت مند لوگوں تک پہنچتا ہے اور اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے معاشرتی دوری کیوں اور کتنی ضروری ہے۔

کراچی

پاکستان کے سب سے بڑے شہر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون عمرے کی ادائیگی کے بعد چھ مارچ کو جدہ سے کراچی کے قائد اعظم انٹرنیشنل ایئر پورٹ پہنچتی ہیں۔

ایئرپورٹ پر ان کا معائنہ کیا جاتا ہے لیکن ان میں کرونا وائرس کی علامات نہیں ملتیں لہٰذا انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

ایئرپورٹ پر انہیں لینے خاندان کے کئی لوگ موجود ہوتے ہیں، جن سے وہ ہاتھ بھی ملاتی ہیں اور معانقہ بھی کرتی ہیں۔ گھر پہنچنے پر وہ مزید لوگوں سے ملتی ہیں۔ اس طرح چند دنوں میں وہ کئی لوگوں سےمل چکی ہوتی ہیں۔

چند روز بعد انہیں بخار اور جسم میں درد محسوس ہوتا ہے، جسے وہ سفر کی تھکان سمجھتے ہوئے خود ہی علاج کرتی ہیں۔ تاہم ان کے رشتہ داروں میں سے کوئی سندھ حکومت کی جانب سے کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے قائم کردہ سیل کو اطلاع کر دیتا ہے۔

متعلقہ محکمے کے اہلکار فوراً ان کے گھر پہنچ جاتے ہیں لیکن انہیں بتایا جاتا ہے کہ خاتون ایک شادی میں شرکت کے غرض سے گھر سے باہر ہیں۔

اہلکار شادی کی تقریب کے مقام پر پہنچتے ہیں اور انہیں وہاں سے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں بلکہ شادی کی تقریب اور خاتون کے گھر والوں سمیت دو درجن افراد کا کرونا کے لیے ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے۔

سعودی عرب سے عمرہ کر کے واپس آنے والی اس خاتون سمیت 12 افراد کے ٹیسٹ کے نتائج مثبت ثابت ہوتے ہیں۔ اس وقت یہ تمام لوگ کراچی کی مختلف ہسپتالوں میں قائم قرنطینہ وارڈز میں زیر علاج ہیں۔

پشاور/اسلام آباد

سات مارچ کو پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب اسلام آباد انٹر نیشنل ایئرپورٹ پر موجود ہیں۔

آپ لندن سے واپس آنے والے اپنے بھائی کے استقبال کے لیے کھڑے ہیں۔ فلائٹ پہنچنے کے بعد بھائیوں کی ایئرپورٹ پر ملاقات ہوتی ہے۔ مصافحہ بھی ہوتا ہے اور دونوں بھائی بغلگیر بھی ہوتے ہیں۔

اگلے دو روز تک دونوں اسلام آباد میں رہائش رکھتے ہیں۔ اس دوران  بیرون ملک سے آنے والے بھائی بدن میں درد اور بخار کی شکایت کرتے ہیں۔

پشاور سے آنے والے صاحب اپنے بھائی کو اسلام آباد کے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

دونوں بھائی 10 مارچ کو پمز پہنچتے ہیں، جہاں کووڈ 19 کے ٹیسٹ کے لیے لندن سے آنے والے بھائی کے گلے اور ناک سے نمونے حاصل کیے جاتے ہیں اور انہیں اپنے گھر پر قرنطینہ میں رہنے کا کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔

وہ اگلے روز مانسہرہ پہنچتے ہی الگ کمرے میں رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ دوسرے بھائی پشاور واپس چلے جاتے ہیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے بھائی 13 یا 14 مارچ کو ایبٹ آباد کے ایک ہسپتال میں زیر علاج اپنی والدہ سے ملنے جاتے ہیں اور واپسی پر گھر میں قرنطینہ میں موجود بھائی سے ملنے مانسہرہ جاتے ہیں۔

پشاور والے بھائی مانسہرہ میں ہی موجود ہوتے ہیں کہ 16 مارچ کو لندن پلٹ بھائی کے ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آ جاتا ہے اور وہ قرنطینہ کو طویل کر لیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرے بھائی 17 مارچ کو پشاور واپس آتے ہیں اور اپنا ٹیسٹ کروانے سیدھا ہسپتال جاتے ہیں۔ 19 مارچ کو ان میں بھی کووڈ 19 کی بیماری کی تصدیق ہو جاتی ہے۔

متعلقہ محکمے نے پشاور والے بھائی کا گھر جس گلی میں واقعہ ہے وہاں لاک ڈاؤن لگا دیا ہے۔ گلی میں موجود 16 مکانات کے رہائشی گھروں سے باہر نکل  سکتے اور نہ کوئی اس گلی میں داخل ہو سکتا ہے۔

اسلام آباد

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی 24 سالہ فریدہ سلیم (فرضی نام) پیشے کے لحاظ سے نرس ہیں اور صوبہ خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقے میں غیر ملکی ادارے کے کلینک میں فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔

تقریباً 10 روز قبل فریدہ سلیم عمرے کرنے کے بعد ملک واپس آنے والے چچا سے ملنے جاتی ہیں، جس دوران وہ پہلے اسلام آباد اور پھر وہاں سے براستہ لاہور چچا کے گھر کے لیے جہلم تک کا سفر کرتی ہیں۔

جہلم میں چند دن گزارنے کے بعد فریدہ جمعے کو واپس اپنے کام پر پہنچتی ہیں تو انہیں بخار کے علاوہ گلے میں خراش اور ناک بہنے کی شکایات تھیں۔

کلینک میں ان کا معائنہ کیا جاتا ہے اور کووڈ 19 کی علامات کی موجودگی کے باعث انہیں قرنطینہ میں رکھنے کے علاوہ ان کے منہ اور ناک سے لیے گئے نمونے اسلام آباد کے نیشنل انسٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) بھیجے جاتے ہیں۔

فریدہ نے بتایا کہ سعودی عرب سے واپس آنے والے ان کے چچا میں کووڈ 19 کی علامات موجود نہیں تھیں۔ تاہم جہلم سے بذریعہ بس واپسی کے دوران ان سے پچھلی سیٹ پر بیٹھے ایک عمر رسیدہ شخص سارے راستے کھانستے رہے تھے۔

سمجھا جا رہا ہے کہ فریدہ نے سفر کے دوران عمر رسیدہ شخص کی کھانسی کے باعث کرونا وائرس حاصل کیا۔

غیر ملکی کلینک کی انتظامیہ نے اس کیس کی تمام تفصیلات ضلعی انتظامیہ کو بھیجیں، جو آگے اسلام آباد، لاہور اور جہلم کی انتظامیہ کو بھیجی جا رہی ہیں۔

حکومتی ادارے اب فریدہ سلیم کے ساتھ بس میں سفر کرنے والے عمر رسیدہ شخص کی تلاش کے علاوہ اس بس کے دوسرے مسافروں کی تلاش بھی کر رہے ہیں۔

ان تین کیسز میں روزمرہ زندگی کے معمولات میں مصروف لوگ کس طرح نادانستگی میں کرونا وائرس کا شکار ہوئے۔

حکومتی اپیلوں اور طبی ماہرین کی اپیلوں کو دیکھا جا رہا ہے کہ پاکستان میں نظر انداز کیا جا رہا ہے جو اس بیماری کے مزید پھیلنے کا سبب بن رہا ہے۔ اکثر لوگ چہرے پر ماسک لگا کر شاید اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہیں لیکن ایسا ہے نہیں۔

کرونا وائرس کا اتنے قلیل عرصے میں دنیا کے تقریباً ہر کونے میں پہنچنا ثابت کرتا ہے کہ یہ مہلک جاندار کس تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسی لیے طبی ماہرین کرونا وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے معاشرتی دوری (سوشل ڈسٹنسنگ) اور وائرس سے متاثر ہونے والوں کو قرنطینہ میں ڈالا جانا ضروری قرار دیتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت