لاہور کے کرونا وارڈ سے 'پہلے پروگرام' پر تنقید

حال ہی میں ایک نیوز چینل کے اینکر نے لاہور کے ایک ہسپتال میں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے بنائے گئے آئیسولیشن وارڈ سے پروگرام کیا، جس پر عوام میں تشویش پائی جاتی ہے۔

(تصویر: منصور علی خان ٹوئٹر اکاؤنٹ)

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف ملک میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے اور لوگوں کو سماجی دوری کے اصول پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت کی جارہی ہے، وہیں بعض میڈیا اراکین کوریج کے دوران رویتی انداز چھوڑنے کو تیار نہیں اور کئی اینکرز ، رپورٹرز اور کیمرہ مین اپنی اور دوسروں کی پرواہ کیے بغیر  پیشہ ورانہ اصولوں کو پس پشت ڈال کر روایتی انداز میں کوریج میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

پنجاب میں اب تک چار صحافیوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ کرونا وائرس کی موجودگی کے شبہ میں 22 صحافیوں کے ٹیسٹ بھی کیے گئے ہیں۔

اسی دوران حال ہی میں ایکسپریس نیوز چینل کے پروگرام 'ٹودی پوائنٹ' کے اینکر منصور علی خان نے لاہور کے ایک ہسپتال میں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے بنائے گئے آئیسولیشن وارڈ سے ہی پروگرام کیا۔

انہوں نے پروگرام کی کچھ ویڈیوز ٹوئٹر پر پوسٹ کرکے اس وائرس سے نمٹنے کے لیے حکومتی تیاریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے عوام کو نہ گھبرانے اور حکومت سے تعاون کا مشورہ دیا۔

ایک طرف جہاں کچھ لوگوں نے اسے سراہا، وہیں سوشل میڈیا اور عوام میں تشویش بھی دیکھی گئی اور لوگ تنقید کرتے نظر آئے۔

ایک صارف نے لکھا: 'آپ صحافی ہوکر ساتھ نہیں دے رہے تو عوام سے کیا شکایت؟'

ایک اور صارف نے اسے 'بے وقوفی' قرار دیا۔

اس حوالے سے منصور علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ لاہور کے ہسپتال میں قائم آئیسولیشن وارڈ کے اندر سے پروگرام کرنے کا مقصد عوام کو حکومتی قدامات سے آگاہ کرنا تھا اور وہ آئندہ بھی مختلف ہسپتالوں میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے انتظامات کے حوالے سے رپورٹ کرتے رہیں گے۔

 منصور علی خان نے بتایا کہ انہوں نے وارڈ سے پروگرام حکومت سے اجازت لے کر کیا تھا اور اس وارڈ میں اس وقت کرونا سے متاثرہ یا مشتبہ کوئی مریض داخل نہیں تھا لیکن اس کے باوجود کیمرہ مینوں سمیت ٹیم کے تمام اراکین نے حفاظتی کٹ پہن رکھی تھیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا لاک ڈاؤن کے دوران آؤٹ ڈور پروگرام ضروری ہیں جبکہ عموماً وہ سٹوڈیو سے پروگرام کرتے ہیں؟ تو منصور علی خان نے جواب دیا کہ 'میڈیا اراکین کو عام لوگوں کی نسبت حفاظتی تدابیر بہتر انداز میں اپنانی چاہییں لیکن ہسپتالوں میں اس غیر معمولی وبا سے بچاؤ کے حکومتی اقدامات کو قریب سے دیکھنا بھی لازم ہے۔'

'اینکرز ضد کریں تو اجازت دینی پڑتی ہے'

اس معاملے پر جب پنجاب حکومت کے ترجمان مسرت جمشید سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ 'حکام کے بعد کسی بھی معاملے میں میڈیا سب سے زیادہ معلومات اور شعور رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود اگر اینکر یا صحافی ضد کریں کہ انہوں نے کرونا متاثرین کے لیے بنائے گئے ایسےآئیسولیشن وارڈ سے رپورٹ کرنا ہے جہاں کوئی متاثرہ یا مشتبہ مریض نہ ہو تو اس کی اجازت دینی پڑتی ہے کیونکہ انکار پر وہ حکومتی انتظامات کے خلاف پروگرام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مزید کہا کہ 'میڈیا کے سامنے بار بار حکومتی عہدیدار اور محکمہ صحت کے حکام کرونا سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر بیان کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ ان کی پرواہ نہیں کر رہے تو حکومت اب کیا پالیسی بنا سکتی ہے؟'

مسرت جمشید نے بتایا کہ ہم نے حکومتی سطح پر ہونے والے اجلاسوں اور پریس کانفرنسوں میں بھی زیادہ لوگوں کے نہ ہونے کی پالیسی اپنائی ہے جبکہ سماجی دوری کے اصول پر بھی عمل ہو رہا ہے، میڈیا اراکین کو چاہیے کہ وہ خود بھی اپنی اور عوام کی جان کا تحفظ کرنے میں کردار ادا کریں۔

میڈیا کوریج پر پالیسی کی ضرورت

اس حوالے سے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے ایک ذمہ دار افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیمرا نے کرونا وائرس سے متعلق نشریات پر کوئی پالیسی مرتب نہیں کی۔ 'ہمارا خیال ہے کہ ملکی میڈیا میں کام کرنے والے سینیئرز خود اتنے ذمہ دار ہیں کہ وہ عوامی مفادات اور شعور و آگہی دینے کے فرائض بخوبی ادا کریں گے، جیسے دہشت گردی کے دنوں میں میڈیا نے خود اپنے لیے قواعد و ضوابط طے کیے تھے اب بھی وہ اسی طرح اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔'

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں اس طرح کی وبا دنیا بھر کی طرح پہلی بار دیکھنے میں آئی ہے، اس لیے کسی حد تک احتیاط میں کوتاہی نظر آرہی ہے لیکن  آنے والے وقت میں میڈیا ورکرز اور انتظامیہ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ ان حالات میں جان بچانا زیادہ ضروری ہے، احتیاط خبر  سے پہلے ہونی چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ ابھی تک کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس کے انتظامات سے متعلق کوئی خصوصی شرائط طے نہیں کی گئیں لیکن اگر میڈیا کے کارکنوں کو اس طرح کی غیر سنجیدہ کوریج سے رکنے کا خود خیال نہ آیا تو ہو سکتا ہے کہ آئندہ اس بارے میں بھی ضابطے طے کرنا پڑیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان