لاک ڈاؤن کے باعث متاثرہ لوگوں کی خدمت کرتے 'فرشتے'

کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کی صورت حال میں فلاحی ادارے اور مخیر حضرات مالی طور پر کمزور افراد کی مدد کے لیے آگے آ رہے ہیں اور نقد رقوم کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا غربا میں تقسیم کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں ایک سبزی فروش اپنی دکان پر موجود ہے، لاک ڈاؤن کے باعث خریدار نہ ہونے کے برابر ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

'کرونا وائرس کی وجہ سے ایک ہفتے سے کام بند ہے۔ گھر میں بہت تھوڑا راشن رہ گیا تھا۔ میں واقعی پریشان تھا کہ دو دن بعد بچوں کے لیے کھانا کہاں سے لاؤں گا، ایسے میں کچھ لوگ آئے اور ہمیں کھانے کا سامان دیا۔ میرے لیے تو وہ فرشتہ ثابت ہوئے۔'

یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ سلیم اللہ خان (فرضی نام) کا، جو اسلام آباد کے نواح میں فرنیچر بنانے والے کارخانے میں کام کرتے ہیں۔ سلیم اللہ کو نہیں معلوم کہ انہیں راشن کس ادارے نے پہنچایا۔ اس بات کی ان کے لیے اہمیت بھی زیادہ نہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'میرے خاندان کے لیے ایک مہینے کا راشن مل گیا۔ میرے لیے یہی کافی ہے۔' سلیم اللہ نے بتایا کہ وہ جس گلی میں رہتے ہیں وہاں تقریباً ایک درجن سے زیادہ گھروں میں راشن تقسیم کیا گیا۔

پاکستان میں کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد بڑھنے کے باعث کم از کم تین صوبوں میں سرکاری طور پر لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ گھروں میں رہنے کو کہا جا رہا ہے۔ سرکاری اور رضاکارانہ لاک ڈاؤن کے باعث ملک میں کاروباری، تجارتی اور معاشی سرگرمیوں میں کمی واقع ہوئی ہے جس کا زیادہ اثر معاشرے کے ان طبقات پر پڑ رہا ہے جو سلیم اللہ کی طرح روزانہ مزدوری کر کے اپنے گھر کا چولہا جلا پاتے ہیں۔

اس صورت حال میں فلاحی ادارے اور مخیر حضرات مالی طور پر کمزور افراد کی مدد کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ درد دل رکھنے والے بڑی تعداد میں نقد رقوم کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا غربا میں تقسیم کر رہے ہیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی شکیل فرمان علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'منگل کی شام میں نے صدر روڈ پر کچھ لوگوں کو کھانے پینے کا سامان تقسیم کرتے دیکھا۔' شکیل فرمان علی نے کہا کہ ایسے مناظر آج کل پشاور اور گردو نواح میں عام دیکھنے میں آتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ معروف ماہر معاشیات اور پاکستان کے سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے پیش کردہ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں جون 2018 تک تقریباً سات کروڑ لوگ غربت کی زندگی گذار رہے تھے اور اس سال جون تک یہ تعداد بڑھ کر آٹھ کروڑ ستر لاکھ ہو جائے گی۔ کرونا وائرس کی وبا سے پیدا ہونے والے بحران کے دوران غربت میں زندگی گزارنے والے پاکستانیوں کی مالی معاونت کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے بھی بدھ کے روز ایک بڑے امدادی پیکج کا اعلان کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹرعظمیٰ سلیم اپنی آمدن کا بڑا حصہ مدرسہ بیت السلام کو عطیہ کر رہی ہیں جہاں موصول ہونے والی رقوم ضرورت مند خاندانوں کو راشن مہیا کرنے پر خرچ ہو رہی ہیں۔

ڈاکٹر عظمیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: 'اللہ ہی ضرورت مند کو آپ کے در پر بھیجتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے باعث لوگوں کی مشکلات کا دن رات پڑھ اور سن رہے ہیں۔ میں ان خبروں کو پروردگار کی طرف سے اپنے لیے غریبوں کی مدد کا حکم سمجھتی ہوں۔' ان کا کہنا تھا: 'جب اللہ نے دیا ہے اور میری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ تو کیوں نہ میں اس کے بدلے ضرورت مندوں کا خیال رکھوں۔'

ڈاکٹر عظمیٰ مشکلات میں گھرے ہم وطنوں کی مدد کرنے میں اکیلی ہیں اور نہ ہی مدرسہ بیت السلام واحد ادارہ ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کو مشکل کی اس گھڑی میں راشن فراہم کر رہا ہے۔ پورے پاکستان میں غیر سرکاری اداروں اور مخیر خواتین و حضرات کی بڑی تعداد ملک میں بسنے والے غریبوں کی مدد کے لیے کمربستہ ہے۔ پیشہ ور اور دانشور پاکستانیوں پر مشتمل پلیٹ فارم کارپوریٹ پاکستان گروپ نے محض دو روز میں 2 کروڑ روپے کے عطیات اکٹھے کر لیے ہیں۔

ادارے کے بانی رکن محمد اظفر احسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'یہ پیسے ہم نے گھر بیٹھے وٹس ایپ اور سوشل میڈیا پیغامات کے ذریعے حاصل کیے ہیں۔' کارپوریٹ پاکستان گروپ اکٹھے ہونے والے عطیات تین فلاحی اداروں، مدرسہ بیت السلام، اخوت اور رابن ہڈ آرمی کو دے رہے ہیں جو ملک کے مختلف حصوں میں غریب خاندانوں میں راشن تقسیم کرنے میں اسے استعمال کر رہے ہیں۔

محمد اظفر احسن نے مزید کہا کہ ان کی تنظیم نے سکھر میں صحت ورکرز کو دستانے اور کووڈ 19 سے متاثر لوگوں کے علاج کے دوران پہنے جانے والا لباس بھی مہیا کیا۔

اسلام آباد میں بیت السلام کے نمائندے محمد قاسم نے بتایا کہ پورے ملک میں نجی ادارے اور مخیر افراد غریب پاکستانیوں کی امداد کے لیے عطیات دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان عطیات سے راشن خریدا جا رہا ہے جس کی ترسیل اسلام آباد کے علاوہ سندھ اور پنجاب میں ضرورت مند خاندانوں کو شروع کر دی گئی ہے۔

محمد قاسم نے مزید کہا کہ ادارے کی ٹیمیں مختلف علاقوں میں جا کر مستحق خاندانوں کی فہرستیں تیارکرتی ہیں اور انہی فہرستوں کے مطابق رضاکار راشن تقسیم کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں مختلف جگہوں پر سٹال بھی لگائے جائیں گے جہاں سے بےروزگار اور غربا کھانے کا سامان حاصل کر سکیں گے۔

پنجاب کے شہر تلہ گنگ میں مدرسہ بیت السلام کی ایک شاخ کی انتظامیہ نے محض ایک گھنٹے میں بیس لاکھ روپے کے عطیات اکٹھے کیے۔ مدرسہ بیت السلام تلہ گنگ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ذیشان عباسی نے کہا کہ یہ تمام عطیات انہوں نے آن لائن سروسز استعمال کرتے ہوئے حاصل کیے۔

مشہور کہاوت ہے کہ ایک ایک اور دو گیارہ۔ یعنی ایک سے زیادہ لوگ مل کر کام کریں تو نتائج کئی گنا زیادہ بہتر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی کہاوت کے مصداق اسلام آباد میں ایک نجی ادارے میں کام کرنے والے چار دوستوں نے مالی طور پر کمزور ہم وطنوں کی مدد کا فیصلہ کیا۔ چاروں دوست گذشتہ پانچ دنوں میں چار سو خاندانوں کو راشن مہیا کر چکے ہیں۔

میاں اطہر جمال نے بتایا: 'یہ تمام سامان ہم چار دوستوں نے اپنی جیب سے خریدا، کسی سے کچھ نہیں مانگا۔' انہوں نے کہا 'گذشتہ کئی روز سے گھر پر کام کر رہے تھے، اچانک خیال آیا کیوں نہ لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والوں کی مدد کی جائے۔'

'ہم نے پہلا مرحلہ پورا کر لیا ہے اور اب آئندہ کے لیے خریداری کر رہے ہیں۔ چند ایک روز میں مزید خاندانوں کو بھی راشن فراہم کیا جائے گا۔'

میاں اطہر نے بتایا کہ انہوں نے اپنے ادارے میں کام کرنے والے پچاس سے زیادہ کارکنوں کو تنخواہ کے ساتھ ایک مہینے کی چھٹی دے دی ہے تاکہ وہ بغیر کسی مالی مسئلے کے خود اور اپنے خاندانوں کو کرونا وائرس سے محفوظ رکھ سکیں۔ میاں اطہر اور ان کے دوستوں نے راولپنڈی پریس کلب کے مالی طور پر کمزور ورکرز کے لیے بھی راشن مہیا کیا۔

معاشی طور پر مشکلات کا سامنا کرنے والے ہم وطنوں کی مدد صرف پیسے دے کر ہی نہیں کی جارہی، کئی لوگ ایسے ہیں جو دوسری خدمات بھی پیش کر رہے ہیں۔ لاہور کے رہائشی 25 سالہ حلیم شاکر نے اپنی خدمات لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے لوگوں کی مدد میں مصروف ایک مخیر شخص کے حوالے کر دی ہیں۔ حلیم شاکر کہتے ہیں: 'میری اتنی استطاعت نہیں کہ میں کسی کی مالی مدد کر سکوں، لیکن میں خدمت کرنا چاہتا ہوں اور اسی لیے میں اپنا وقت اس نیک کام میں لگا رہا ہوں۔' وہ راشن کے پیکٹ بنانے اور تقسیم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ جبکہ ابتدائی طور پر مستحق افراد کی نشاندہی میں بھی انہوں نے اپنی خدمات پیش کیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں فلاحی ادارے اور مخیر حضرات مصیبت میں پھنسے لوگوں کی مالی اور جسمانی مدد کر رہے ہوں۔ اکتوبر 2005 میں شدید زلزلے نے پاکستان کے کئی علاقوں تباہی مچائی جس سے ہزاروں اموات کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہو گئے۔ اس موقعے پر ملک بھر سے فلاحی ادارے، تنظیمیں اور مخیر حضرات بڑی تعداد میں آگے آئے اور زلزلہ متاثرین کی بھرپور مدد کی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان