منگا کے 39 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق کے باجود لوگوں کی وہی ڈگر

علاقے میں لوگوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا اب بھی جاری ہے، تاہم گاؤں سے باہر نکلنے سے لوگ باز آگئے ہیں، کیونکہ جو بھی نکلنے کی کوشش کرتا ہے پولیس ان کو گرفتار کر رہی ہے: سابق نائب ناظم منگا

مردان کی یونین کونسل منگا میں کرونا (کورونا) وائرس کے نتیجے میں پہلی ہلاکت کے بعد پورے علاقے کو لاک ڈاؤن کرکے لوگوں کے کرونا وائرس کے ٹیسٹ کروائے گئے تھے، جن کے نتائج کے مطابق 46 افراد میں سے 39 کی رپورٹ مثبت آئی ہے۔

خیبر پختونخوا کے وزیر صحت  تیمور جھگڑا نے ٹوئٹر پر عوام کو مردان کے علاقے منگا کے بارے میں تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ 46 افراد میں سے 39 کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں جبکہ چار نمونوں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے مزید تفصیل کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

منگا میں لاک ڈاؤن سے متعلق تفصیلات دیتے ہوئے مردان کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر  (ڈی پی او) سجاد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے پولیس کی نفری 120 سے بڑھا کر 200 کر دی ہے اور گاؤں کے 14 چھوٹے بڑے راستوں کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔

سجاد خان نے بتایا: 'ہم نے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔ پولیس گاؤں میں پٹرولنگ کر رہی ہے، تاکہ کسی کو بلا ضرورت گھر سے نکلنے نہ دیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ لوگوں کی آگہی کے لیے لاؤڈ سپیکر سے ان کو ضروری ہدایات بھی دی جارہی ہیں۔ میں خود بھی کچھ دیر پہلے کچھ آرمی افسران کے ساتھ جائزہ لینے گیا ہوں۔'

ڈی پی او سجاد نے مزید بتایا کہ لوگ کنٹرول میں ہیں، کسی قسم کی مزاحمت نہیں کر رہے بلکہ اب وہ پولیس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

منگا کے عوام کے تاثرات کیا ہیں؟

منگا کے 65 سالہ سابق نائب ناظم کشور خان گذشتہ ڈیڑھ ہفتے سے اپنے گاؤں والوں اور انتظامیہ و پولیس کے درمیان ایک موثر رابطے کا ذریعہ بنے ہوئے تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے جب ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے وزیر صحت کی خبر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’ہم نے جھگڑا صاحب کا بیان دیکھا ہے۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ ہمیں ویسے ہی پریشان کر دیا ہے۔ میں نے ڈی سی آفس سے پوچھا اور ٹیسٹ لینے والے ڈاکٹروں سے بھی، لیکن وہ تو کہہ رہے ہیں کہ ابھی کچھ بھی مصدقہ نہیں ہے۔'

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'دراصل میں پریشان اس لیے ہو گیا ہوں کیونکہ میں نے اور میرے ایک بیٹے نے بھی ٹیسٹ کروایا تھا۔'

واضح رہے کہ جب منگا کے رہائشی سعادت خان نامی شخص کی کرونا وائرس سے موت واقع ہوئی تو ان کے اہل خانہ سمیت تمام رشتہ داروں بشمول ان دو اشخاص کے جو ان کے ساتھ عمرے کی غرض سے سعودی عرب گئے تھے، کو فوری طور پر عبدالولی خان یونیورسٹی میں رکھ کر تنبیہ کی گئی تھی کہ کسی کو بھی باہر جانے کی اجازت نہ ہوگی۔

اس دوران بھی سابق نائب ناظم کشور خان بغیر کسی حفاظتی تدابیر کے ان لوگوں سے رابطہ میں رہے۔  یہاں تک کہ جب یہ لوگ زبردستی یونیورسٹی کی عمار ت سے باہر نکلے تو کشور ان کے ہمراہ گاؤں بھی گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت پر کشور خان نے یہ کہہ کر بات ٹال دی تھی کہ باہر نکلنا اور لوگوں سے میل جول رکھنا ان کی مجبوری تھی۔

65 سالہ کشور خان نے بتایا کہ آج وہ اپنے حجرے میں ہیں اور جب تک ان کو ڈاکٹرز کی جانب سے ان کے ٹیسٹ کے نتائج نہیں بتائے جاتے وہ حجرے سے باہر قدم نہیں نکالیں گے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ان کے گاؤں میں اب بھی وائرس سے کوئی خاص خوف نہیں ہے۔ جس کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا: 'ہمارے لوگ بہت سادہ لوح ہیں۔ خواتین کو تو بالکل بھی کسی چیز کا نہیں پتہ اور نہ ہی اندازہ ہے۔ اب بھی شام کو سات آٹھ پڑوسی خواتین ہمارے گھر تندور پر روٹیاں پکانے آجاتی ہیں۔اب ہم ان کو منع تو نہیں کر سکتے۔'

کشور خان نے مزید بتایا کہ لوگوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا اب بھی جاری ہے، تاہم گاؤں سے باہر نکلنے سے لوگ باز آگئے ہیں، کیونکہ جو بھی نکلنے کی کوشش کرتا ہے پولیس ان کو گرفتار کر رہی ہے۔

دوسری جانب منگا گاؤں کے حوالے سے وزیر صحت کے حالیہ بیان کے بعد اس گاؤں کے ایک رہائشی محمد دیار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'اگر39 ٹیسٹ مثبت آ گئے ہیں تو ابھی تک ان لوگوں کے نام کیوں نہیں جاری کیے گئے اور ابھی تک کوئی ٹیم ایسے لوگوں کو قرنطینہ میں رکھنے کے لیے کیوں نہیں پہنچی ہے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ 'جن لوگوں نے ٹیسٹ دیے تھے وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ان کا رزلٹ بتا دیا جائے تاکہ وہ اس کشمکش سے باہر آجائیں۔'

ڈاکٹروں کو حفاظتی کٹس اور دیگر سہولیات کی فراہمی

دوسری جانب ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندے ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن ، جو کہ منگا گاؤں کے عوام کے خون کے نمونے لینے والی ٹیم میں شامل ہیں، نے اپنے تازہ ترین ویڈیو پیغام میں بتایا ہے کہ ان کے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں آئسولیشن وارڈ تو قائم کر دیا گیا ہے لیکن ڈاکٹروں کو حکومت کی جانب سے حفاظتی کٹس ابھی تک مہیا نہیں کی گئی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں بیڈز اور وینٹی لیٹرز کی بھی اشد ضرورت ہے۔

ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن کا کہنا تھا: ’آگے مزید سہولیات کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لہذا بہتر ہوگا کہ ابھی سے پورا انتظام کیا جائے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان