رپورٹنگ کے ساتھ کرونا کی آگاہی پھیلانے میں مصروف صحافی

ژوب کے صحافی عبدل ہادی کو اپنے شہر کے لوگوں میں کرونا وائرس کے بارے میں معلومات میں کمی محسوس ہوئی تو انہوں نے آگاہی مہم شروع کر دی۔

ہادی فری لانس صحافی ہیں  اور ڈیجیٹل سٹوریز پر کام کرتے ہیں(تصویر: عبدل ہادی )

عبدل ہادی 24 برس کے ہیں اور صحافت میں قدم رکھے انہیں ابھی دو برس ہی ہوئے ہیں لیکن کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے دوران یہ کئی جانے مانے صحافیوں سے بڑھ کر اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں ۔

ہادی فری لانسر صحافی ہیں اور ڈیجیٹل سٹوریز پر کام کرتے ہیں۔ زیادہ تر تو یہ کوئٹہ میں رہتے ہیں مگر ان کا تعلق بلوچستان کے شہر ژوب سے ہے۔ ہادی نے جب دیکھا کہ کرونا وائرس ملک بھر میں زور پکڑ رہا ہے اور ژوب سے بھی ایک مشتبہ کیس سامنے آگیا ہے تو انہوں نے بھی کچھ کرنے کی سوچی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ہادی نے بتایا کہ وہ یہ جانتے تھے کہ ژوب میں شرح خواندگی بہت کم ہے اور لوگ اس وائرس کو ایک مذاق کے طور پر لے رہے تھے۔

ہادی نے بتایا کہ آخری مردم شماری کے مطابق  ژوب کی آبادی تین لاکھ 53 ہزار ہے جس کے علاوہ یہاں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرد افغان مہاجرین کی بھی ایک بڑی تعداد مقیم ہے، جبکہ  ژوب سے ملحقہ ضلع شیرانی کی 70 فیصد آبادی بھی ژوب میں ہی رہتی ہے جس کی وجہ سے ژوب کی آبادی پانچ لاکھ سے تجاوز کر جاتی ہے۔

ہادی کہتے ہیں : 'اتنی آبادی کی مناسبت سے یہاں کرونا وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے آگاہی صفر تھی اور ژوب کی انتظمیہ بھی کمزور تھی، اسی لیے ایک صحافی ہونے کے ناطے میں نے سوچا کہ میں ان لوگوں کو ڈھونڈوں جو ہمارے علاقے میں کرونا وائرس کے حوالے سے آگاہی پھیلا رہے ہوں یا اسے رپورٹ کررہے ہوں مگر افسوس مجھے کوئی نہ ملا۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر ہادی نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک تنظیم بنائی۔ 'میں نے یہاں کے محکمہ ماحولیات سے رابطہ کیا اور ان کے ڈائریکٹر کو اعتماد میں لے کر انہی کے دفتر میں ایک آگاہی سیشن منعقد کروایا۔ اس سیشن میں میں نے نو افراد کو بلایا کیونکہ حکومت نے منع کیا تھا کہ دس سے زیادہ افراد اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ ان کو بٹھاتے ہوئے میں نے ان کی نشستوں کے درمیان فاصلے کو بھی مد نظر رکھا۔'

ہادی نے بتایا کہ انہوں نے اس سیشن میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ ماحولیات کی شرکت کو یقینی بنایا اور ان کے علاوہ اس آگاہی سیشن میں انہوں نے ان لوگوں کو مدعو کیا جو سماجی رابطوں کی سائٹس پر کافی متحرک ہیں اور جانے پہچانے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: 'اب وہی لوگ جو میرے سیشن میں آئے تھے وہ رضاکارانہ طور پر اس علاقے میں میرے ساتھ مل کر آگاہی پھیلا رہے ہیں۔  اس کے علاوہ ہم رضاکارانہ طور پر پورے شہر میں سینیٹائزرز تقسیم کر رہے ہیں اور چند روز میں ہم ان لوگوں تک راشن بھی پہنچائیں گے جو مالی طور پر اتنی سکت نہیں رکھتے کہ گھر میں مہینے کا راشن بھر سکیں۔'

انہوں نے مزید کیا: 'مگر اس سے بھی اہم یہ ہے کہ ہم لوگوں کو یہ بتائیں کہ کرونا وائرس سے بچنے کے لیے وہ اپنے طور پر کیا اقدامات کر سکتے ہیں ۔ اس کے لیے ہم نے جگہ جگہ دیواروں پر پوسٹر لگائے اور پمفلٹ بانٹے۔'

ہادی کہتے ہیں: 'ہم سب رضاکار مل کر سینیٹائزر خود بنا رہے ہیں اور وہ بھی اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے۔ ہمارے پاس کسی قسم کی کوئی ڈونیشن نہیں ہے، ہم بناتے بھی خود ہیں اور تقسیم بھی خود ہی کرتے ہیں۔'

ہادی کا اگلا قدم مسجدوں میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے منادی کروانا بھی ہے۔ ہادی کہتے ہیں کہ ژوب کی 99 فیصد آبادی پشتو بولتی ہے اس لیے ہماری کوشش ہے کہ مسجدوں سے جو اعلان کیا جائے وہ مقامی زبان میں کیا جائے جبکہ آئیندہ آنے والے دنوں میں ہونے والے آگاہی سیمینارز میں سیشن 50 فیصد اردو جبکہ  50فیصد پشتو زبان میں کیا جائے گا۔

ہادی کہتے ہیں: 'جب میں یہاں آیا تو لوگ مذاق اڑا رہے تھے مگر اب اتنی آگاہی آگئی ہے کہ لوگ اپنا بچاؤ کر رہے ہیں۔'

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل