کرونا وبا کا بحران: پاکستان کی پارلیمان کہاں ہے؟

دنیا کے کئی ملکوں میں منتخب نمائندے پارلیمان کے ذریعے بدستور اہم فیصلے کر رہے ہیں لیکن پاکستان میں یہ فیصلے پارلیمان سے باہر ہو رہے ہیں۔

قومی اسمبلی کا اجلاس نو مارچ کو شیڈول کے مطابق شروع ہوا، جو 20 مارچ تک چلنا تھا لیکن اسے 13 مارچ کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا (اے ایف پی)

دنیا بھر میں پھیلی مہلک کرونا ( کورونا) وبا کے باوجود کئی جمہوری ملکوں میں منتخب عوامی نمائندے بدستور اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے مشاورت اور اہم فیصلے کر رہے ہیں۔  

جرمنی جہاں کووڈ۔19 کے 50 ہزار کیس سامنے آئے اور 285 اموات ہوئیں، کی پارلیمان بنڈسٹیگ نے موجودہ صورتحال میں ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے 814 ارب ڈالرز کے پیکج کی منظوری دی۔

اسی طرح لاک ڈاؤن کے شکار سپین (3500 اموات اور 50 ہزار سے زیادہ کیسز) کی کانگریس آف ڈپٹیز میں تعلیمی اداروں کو 12 اپریل تک بند رکھنے کے سوال پر اہم بحث ہوئی۔

برطانیہ (495 اموات، تقریباً 15 ہزار کیسز) کی پارلیمان کے ایوان زیریں (ہاؤس آف کامنز) میں کرونا وبا کے بارے میں حکومتی پالیسیوں پر بحث کے لیے مخصوص اراکین کا اجلاس ٹیلی کانفرنسنگ کے ذریعے منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔

کینیڈا (39 اموات، چار ہزار سے زیادہ کیسز) کی پارلیمان کے ایوان زیریں میں کئی روز سے جاری اجلاس میں کرونا وبا پر بحث ہوئی اور پیر کو اجلاس 21 اپریل تک ملتوی کر دیا گیا۔

جبکہ جنوبی کوریا (139 اموات، نو ہزار سے زیادہ کیسز) کی پارلیمان کے ایوان زیریں میں حکومتی پالیسیوں پر بحث جاری تھی، جب دو روز قبل اجلاس ملتوی کیا گیا۔

اعداد و شمار سے واضح ہے کہ مندرجہ بالا ملک دنیا میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں میں شامل ہیں، لیکن اس کے باوجود وہاں کے منتخب نمائندے آخری لمحات تک اپنی اپنی حکومتوں کی کرونا وائرس سے متعلق پالیسیوں پر بحث اور رہنمائی کرتے رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان تمام مثالوں کے برعکس پاکستان کی پارلیمان میں کرونا وبا سے متعلق کوئی موثر اور بامعنی بحث نہیں ہوئی۔

پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو سامنے آیا جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس نو مارچ کو شیڈول کے مطابق شروع ہوا، جو 20 مارچ تک چلنا تھا۔

تاہم حکومتی اور حزب اختلاف کے اراکین کی ایما پر یہ اجلاس 13 مارچ کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

اس آخری اجلاس میں کرونا وبا سے متعلق بمشکل دو گھنٹے بحث ہوئی، جس میں ایران سے آنے والے زائرین اور تفتان میں قرنطینہ کے برے انتظامات کا تذکرہ ہوا۔

اس وقت پاکستان میں کرونا وبا سے متعلق تمام اہم فیصلے وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کی سطح پر کیے جا رہے ہیں۔

انتخابی، قانون سازی اور مقامی حکومتوں کے موثر نظام کے لیے کام کرنے والی مقامی سول سوسائٹی کی تنظیموں کے نیٹ ورک 'فری اینڈ فیئر الیکنش نیٹ ورک' (فافین) نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بلا کر منتخب نمائندوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

جمعے کو مقامی روزناموں میں شائع ہونے والے فافین کے ایک بیان میں چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بلانے کا بھی مشورہ دیا گیا۔

فافین کے ترجمان سرور باری نے جمعے کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کا بھی موجودہ صورت حال سے نمٹنے کا تجربہ نہیں۔

'اتنے بڑے بحران سے متعلق فیصلہ سازی کے لیے حکومت اور حزب اختلاف کو مل کر کام کرنا ہو گا اور اسی لیے اسمبلیوں کا اجلاس بلانا بہت ضروری ہے۔'

پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے سابق چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر میاں رضا ربانی کے مطابق کرونا وائرس کے باعث اراکین پارلیمان کا اجلاس میں آنا ممکن نہیں کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے فضائی اور زمینی راستے بند ہیں اور تمام اراکین کے لیے اسلام آباد پہنچنا ممکن نہیں ہو گا۔

تاہم انہوں نے وفاقی حکومت کو مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا فوراً اجلاس بلانے کا مشورہ دیا۔

'کرونا وائرس کی وبا سے متعلق ہر قسم کی پالیسی پہلے سی سی آئی کے سامنے رکھی جائے اور خصوصاً ایسے اقدامات جن کے ذریعے ملکی خزانے سے پیسے خرچ ہو رہے ہوں یا باہر سے امداد آنا ہو۔'

رضا ربانی نے مزید کہا کہ سی سی آئی کے تمام فیصلوں پر بعد میں پارلیمان میں بحث ہو سکتی ہے۔

فافین کے سرور باری کا کہنا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ کے لیے جسمانی طور پر موجود ہونا ممکن نہیں تو اجلاس ٹیلی ورکنگ کے ذریعے بھی منعقد کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کی کئی اسمبلیوں میں منتخب نمائندے ٹیلی ورکنگ کے ذریعے اجلاسوں میں حصہ لے رہے ہیں۔

ٹیلی ورکنگ کیا ہے؟

سافٹ ویئرانجینیئرعباس حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں کسی ادارے سے منسلک افراد کو کام کی خاطر ادارے کے مرکزی دفتر تک سفر نہیں کرنا پڑتا بلکہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی مواصلات کے ذریعے گھر بیٹھے فرائض سر انجام دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا میں مختلف کمپنیاں ایسے سافٹ ویئربنا رہی ہیں جن کے ذریعے ٹیلی ورکنگ سستی اور آسان ہو گئی ہے۔

عباس حیدر نے مزید کہا کہ کرونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر میں ٹیلی ورکنگ کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور اس سہولت کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی کئی ادارے ٹیلی ورکنگ کا استعمال کر رہے ہیں، جس کے لیے سکائپ کے علاوہ دوسرے آپشنز زیر استعمال ہیں۔ پاکستان میں کئی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں ٹیلی ورکنگ کی سہولت بھی فراہم کرتی ہیں۔

پاکستانی اسمبلیوں کے لیے ٹیلی ورکنگ ممکن ہے؟

رضا ربانی کے خیال میں قومی اسمبلی یا سینیٹ کا اجلاس ٹیلی ورکنگ کے ذریعے ممکن نہیں ہو سکے گا۔

ان کا خیال ہے کہ صرف قومی اسمبلی کے اراکین کی تعداد 342 ہے اور اسمبلی سیکریٹریٹ کے ضروری عملے کو ملا کر اتنی بڑی تعداد کو نیٹ ورک میں شامل کرنا شاید ممکن نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ ضروری نہیں کہ ٹیلی ورکنگ کے لیے درکار لوازمات تمام اراکین اسمبلی کے پاس موجود ہو، کیونکہ انٹرنیٹ صرف بڑے شہروں میں دستیاب ہے اور یہ سہولت ملک کے دور دراز حصوں سے تعلق رکھنے والے ایم این ایز کی دسترس سے باہر ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ سی سی آئی اور دوسری اہم پارلیمانی کمیٹیوں کے اجلاس ٹیلی ورکنگ کے ذریعے منعقد کیے جا سکتے ہیں اور حکومت کو اس آپشن پر ضرور غور کرنا چاہیے۔

سرور باری سینیٹر ربانی کے خیال سے متفق نہیں اور وہ دلیل دیتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں عموماً 60 سے 70 اراکین ہی موجود ہوتے ہیں اور اتنے ایم این ایز کو ٹیلی ورکنگ کے ذریعے جوڑا جا سکتا ہے۔

عباس حیدر کا کہنا تھا کہ ٹیلی ورکنگ کے لیے استعمال ہونے والے پروگرامز میں سینکڑوں افراد کی بیک وقت نیٹ ورکنگ ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیٹ ورکنگ کا حصہ بننے کے لیے کمپیوٹریا سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کا ہونا لازمی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی سی ایل کے وسائل اور مہارت کو استعمال کر کے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کے لیے ٹیلی ورکنگ کی سہولت کا انتظام کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست