'ایرانی سفارت کار استنبول میں سیاسی مخالف کے قتل کے ذمہ دار'

گذشتہ سال 14 نومبر کو مسعود مولوی وردنجانی کو استنبول کی ایک گلی میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

ترک پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق مسعود وردنجانی نے اپنی ہلاکت سے تین ماہ قبل سوشل میڈیا پر ایران کے انقلابی گارڈز پر تنقید کی تھی (فائل تصویر: اے  ایف پی)

ترکی کے دو سینئیر عہدیداروں نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ترکی میں واقع ایران کے قونصلیٹ میں تعینات دو انٹیلی جنس اہلکاروں نے گذشتہ نومبر میں استنبول میں مقیم ایران کی حکومت پر تنقید کرنے والے سیاسی مخالف کے قتل میں کردار ادا کیا ہے۔

 یہ الزامات ایران اور ترکی کے درمیان تعلقات کو کشیدگی کی جانب لے جا سکتے ہیں۔ ترکی میں صدر اردوغان کی حکومت کے دوران ایران اور ترکی کے تعلقات میں کافی قربت دیکھنے میں آئی ہے۔

گذشتہ سال 14 نومبر کو مسعود مولوی وردنجانی کو استنبول کی ایک گلی میں گولی مار کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے ایک سال قبل ہی ایران چھوڑا تھا۔

دو ہفتے قبل شائع ہونے والی پولیس رپورٹ کے مطابق مسعود وردنجانی ایک 'غیر معمولی' شخصیت تھے، جو اپنی پروفائل کے مطابق ایران کے محکمہ برائے سائبر سکیورٹی میں وزارت دفاع کے ملازم تھے اور ایرانی حکام پر کافی کھل کر تنقید کرتے تھے۔

رپورٹ کے مطابق مسعود وردنجانی نے اپنی ہلاکت سے تین ماہ قبل سوشل میڈیا پر ایران کے انقلابی گارڈز پر تنقید کی تھی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ 'میں ان بدعنوان مافیا کمانڈروں کو ختم کر دوں گا۔ دعا ہے کہ وہ مجھے اس سے پہلے قتل ہی نہ کردیں۔'

روئٹرز آزدانہ طور پر مسعود وردنجانی کی ایران کی وزارت دفاع میں ملازمت یا ان کی سوشل میڈیا پوسٹس کی تصدیق نہیں کر سکا۔ دوسری جانب ترکی میں واقع ایرانی قونصل خانے نے جمعے کو اس حوالے سے کی جانے والی فون کالز کا کوئی جواب نہیں دیا۔

استنبول پولیس کے ترجمان نے اس قتل میں ایرانی حکومت کے ممکنہ طور پر ملوث ہونے کے کردار کے حوالے سے سوال پر صرف اتنا کہا کہ اس بارے میں تفتیش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کچھ کہنے سے گریز کیا۔

اس قتل کے ایک ہفتے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس واقعے کو 'ایک اور افسوس ناک واقعہ' قرار دیا، جو 'سیاسی مخالفین کے خلاف مشتبہ ایرانی حمایت یافتہ قتل کی کوششوں' کی ایک اور مثال ہے۔ انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیل بیان نہیں کی تھی۔

ترکی کے حکام نے ابھی تک ایران پر کھلے عام اس قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد نہیں کیا لیکن دو سینئیر ترک حکام کے مطابق ترکی کی حکومت اس قتل کے مدعے کو ایرانی حکومت کے سامنے اٹھائے گی اور ترک وکلا اس کیس کی پیروی کر رہے ہیں۔

ایک ترک عہیدیدار کے مطابق قتل کے بعد گرفتار کیے جانے والے افراد جن میں ترک اور ایرانی شہری شامل تھے، نے ترک حکام کو بتایا تھا کہ انہوں نے ایرانی قونصلیٹ کے دو انٹیلی جنس افسران کے حکم پر عمل کیا تھا۔

ایک اور ترک عہدیدار کے مطابق: 'یہ سامنے آیا ہے کہ سفارتی پاسپورٹ رکھنے والے دو ایرانی اہلکاروں نے اس قتل کا حکم دیا تھا۔' ترک عہدیدار کے مطابق یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ ایرانی شہریوں نے اس قتل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسعود وردنجانی کافی عرصے سے ایرانی حکام کی نظر میں تھے۔ دو ایرانی سکیورٹی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ مسعووردنجانی نے ایران کے انقلابی گارڈز کی اس وارننگ کو نظر انداز کیا تھا جس کے مطابق انہیں ترکی کی کمپنیوں کے ساتھ ڈرون پروجیکٹ کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے یورپی ممالک اور امریکہ سے بھی اس سلسلے میں کام کرنے کے لیے رابطہ کیا تھا۔ روئٹرز ان معلومات کی تصدیق نہیں کر سکا۔

ایک ایرانی ذرائع کے مطابق مسعود وردنجانی نے آن لائن ایک دستاویز شائع کی تھی جو انہوں نے ایران میں موجود افراد سے ہیک یا حاصل کی تھی اور انہوں نے انقرہ میں موجود ایرانی قونصل خانے سے رابطے کی ہدایت کو بھی نظر انداز کیا تھا۔ اس کی بجائے وہ امریکی اور اسرائیلی سفارت کاروں سے ملتے رہے۔ ذرائع نے اس دستاویز یا ملاقات کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی۔

ایک اور ایرانی ذرائع کے مطابق مسعود وردنجانی کو غیر ملکی سفارت کاروں سے ملاقات نہ کرنے کے حوالے سے تنبیہ کی گئی تھی۔

استنبول پولیس اور ترکی کی انٹیلی جنس کی مشترکہ تحقیق میں 320 گھنٹے کی فوٹیج اور 49 مقامات کی تلاشی لی گئی جبکہ 185 افراد سے تحقیق بھی کی گئی۔ ویڈیو کے مطابق 14 نومبر کو رات ساڑھے دس بجے ایک شخص کو پستول اٹھائے بھاگتے دیکھا جا سکتا ہے، جس نے استنبول میں سسلی کے علاقے میں ایک شخص پر کئی فائر کیے جبکہ اس شخص کے ساتھی بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔

حکام کے مطابق مسعود وردنجانی کے ساتھ موجود افراد کی ان سے جون 2018 کے بعد اس وقت دوستی ہوئی تھی، جب وہ ایران سے ترکی آئے تھے۔ ترک حکام کے مطابق وقوعے کے دن مسعود وردنجانی کے ساتھی جن کا نام علی اسفنجانی ہے، ایرانی قونصلیٹ گئے تھے۔ جس کے بعد وہ حملہ آوروں سے ملے تھے۔

پولیس کے مطابق علی اسفنجانی قتل کرنے والے اس گروہ کے سربراہ ہیں۔

تین دن بعد اسفنجانی کا ایران کی سرحد تک پیچھا کیا گیا لیکن وہ جعلی نام کے ذریعے بس ٹکٹ حاصل کرکے ایرانی سرحد تک پہنچنے اور پھر سرحد پار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ روئٹرز علی اسفنجانی کی تفصیلات کی تصدیق نہیں کر سکا۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا