ساجد حسین لاپتہ: بلوچ جائیں تو کہاں جائیں؟

بلوچ صحافی ساجد حسین کے سوئیڈن میں پراسرار طور پر لاپتہ ہونے نے بلوچ حلقوں میں اس بحث کو جنم دیا ہے کہ کیا بلوچ دنیا کے کسی کونے میں 'لاپتہ' ہونے سے بچ بھی سکتے ہیں؟ 

ساجد حسین کے بلوچستان سے متعلق معلوماتی مضامین اکثر  'دا نیوز' کے ادارتی صفحے پر شائع ہوتے تھے۔

ممتاز بلوچ صحافی اور بلوچستان ٹائمز نامی آن لائن انگریزی اور بلوچی جریدے کے مدیر ساجد حسین کے سوئیڈن میں دو مارچ سے پراسرار طور پرلاپتہ ہونے نے بلوچ حلقوں میں اس بحث کو جنم دیا ہے کہ کیا بلوچ دنیا کے کسی کونے میں 'لاپتہ' ہونے سے بچ سکتے ہیں؟ 

ساجد کا تعلق بلوچستان کے ابھرتے ہوئے قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے پاکستان ایران سرحد پر واقع ایک چھوٹے سے گاؤں مندکے میں پیدا ہونے کے بعد دن رات محنت کرکے نا صرف جامعہ کراچی سے معیشت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی بلکہ وہ ان گنے چنے بلوچوں میں سے ہیں، جنھوں نے 'ڈیلی ٹائمز' اور 'دا نیوز انٹرنیشنل' جیسے قومی انگریزی اخبارات کے ساتھ کام کیا۔

بلوچستان سے متعلق ان کے معلوماتی مضامین اکثر دا نیوز کے ادارتی صفحے پر شائع ہوتے تھے۔

ان کا تعلق بلوچستان کی اس نسل  سے ہے جو صوبے میں ایک دہائی سے جاری شورش میں حکومت اور علحیدگی پسند بلوچ قوم پرستوں کی جنگ میں collateral damage  بن گئے، یعنیٰ جب اس شورش میں شدت آئی تو کئی صحافی، پروفیسر، طلبہ اور انسانی حقوق کے کارکن یہ سمجھنے لگے کہ اب ان کے لیے بلوچستان محفوظ نہیں کیونکہ وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں آزادی سے نہیں ادا کر سکتے۔

شورش میں مصروف عمل فریقین چاہتے ہیں کہ صحافی کسی ایک فریق کا انتخاب کریں جب کہ صحافی کا کام  یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی فریق کے ساتھ نہ ہو۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں تشدد اور بندوقوں کا بول بالا ہو وہاں صحافیوں کی حالت ایسی ہے کہ 

ایک مشت خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے 

زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا

ساجد حسین کو مجبوراً پاکستان سے بوریا بستر سمیٹنا پڑا کیونکہ ان دنوں بلوچستان کے معاملات پر لکھنا مسخ شدہ لاش ہونے کی خواہش کرنے کے مترادف تھا۔ ساجد نے کئی سالوں کی محنت اور صحافت کے شعبے میں روشن مستقبل کو اسی فلاسفی کے تحت وقتی طور پر خیر باد کہہ دیا کہ 'جان ہے تو جہان ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لکھنے والوں کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ لکھنے کے علاوہ کوئی اورکام نہیں کر سکتے اور جس موضوع سے انھیں عشق یا عبور حاصل ہو وہ دنیا میں جہاں بھی جائیں اس سے قطع تعلق نہیں رکھ سکتے۔

یوں ساجد نے عمان اور یوگینڈا میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزاری لیکن وہ صحافت اور اپنے قارئین سے دیر تک دور نہیں رہ سکے۔ پانچ سال قبل انہوں نے بلوچستان ٹائمز کے نام سے ایک آن لائن جریدے کا اجرا کیا جو بہت جلد قارئین میں مقبول ہوا کیونکہ اس میں بلوچستان سے متعلق انگریزی اور بلوچی میں بے باک مضامین، تبصرے، انٹریوز اور تجزیے شائع ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے بلوچی زبان میں پوڈ کاسٹ کا بھی ایک سلسلہ شروع کیا اور جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے راقم کو اپنے شو میں مدعو کیا اور پوچھا کہ ٹرمپ کی کامیابی کا جنوبی ایشیا اور بالخصوص بلوچستان کی تحریک پر کیا اثر پڑے گا؟ 

جو لوگ ساجد کی شخصیت اور صحافتی سفر سے واقف ہیں وہ ان چند الفاظ میں انھیں بیان کرتے ہیں۔ ساجد کسی سردار، نواب یا جاگیر دار کے بیٹے نہیں ہیں۔ وہ ایک سیلف میڈ انسان ہیں، جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے اپنا کیریئربنایا۔

بہت کم ایسے بلوچ ہیں جو کسی قومی انگریزی اخبار میں کام کریں۔ اگر حالات مجبور نہ کرتے تو وہ یقیناً پاکستان نہ چھوڑتے اور یہیں اپنا کیریئر بناتے۔ ساجد کا ملُک چھوڑنا اور مین سٹریم میڈیا کو خیرباد کہنا بلوچستان کاعلمی نقصان تھا۔ 

انہیں ملک اپنی صحافت کی وجہ سے چھوڑنا پڑا۔ ایک بار انہوں نے بلوچستان میں ڈرگ مافیا کے ایک سرغنے کے بارے میں رپورٹنگ کی تھی جس کی وجہ سے ان کے اہل خانہ کو براہ راست دھمکیاں ملیں۔

چند روز بعد سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگ کوئٹہ میں ان کے گھر پر آئے اور ان کی اہلیہ سے پوچھا کہ ساجد (جو رپورٹنگ کی غرض سے فیلڈ میں تھے) کہاں ہیں؟

جب اہلیہ نے کہا کہ ساجد گھر پہ نہیں تو یہ لوگ ان کا لیپ ٹاپ اور دیگر دستاویزات اپنے ساتھ لے گئے۔ ایسے مشکل حالات میں ان کے لیے صحافت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو رہا تھا۔ 

ساجد کو سوئیڈن میں حال ہی میں سیاسی پناہ تو مل گئی لیکن وہ دو مارچ سے پراسرار طور پرلاپتہ ہوگئے ہیں۔

اگرچہ میں نے بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے کئی افراد کے معاملات پر رپورٹنگ کی لیکن یہ اپنی نوعیت کا ایک پہلا اور انوکھا واقعہ ہے کہ ایک شخص جس نے 'لاپتہ' ہونے کے خوف سے اپنا ملک چھوڑکر بیرون ملک سیاسی پناہ لی اور وہ وہاں سے لاپتہ ہو جائے۔

ان کے لاپتہ ہونے سے یورپ اور امریکہ میں مقیم دیگر سیاسی پناہ گزین پریشان نظر آتے ہیں کہ یا الہیٰ یہ کیا ماجرا ہے۔ 

جب میری ساجد کے اہل خانہ سے بات ہوئی توانہوں نے بتایا کہ جب تک سوئیڈن کی پولیس اپنی تحقیقات مکمل نہیں کرتی، وہ اس معاملے پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ انہیں کسی پر شک ہے اور نا ہی وہ کسی پر انگلی اٹھانا چاہتے ہیں کیونکہ ساجد نے حالیہ دنوں میں کسی قسم کے خطرے یا دھمکی کی طرف اشارہ نہیں کیا تھا۔

انہوں نے حال ہی میں اُپسالہ یونیورسٹی میں ماسٹرز کی ڈگری کے لیے داخلہ لیا تھا اور اسی سلسلے میں وہاں ایک ہاسٹل میں منتقل ہوگئے تھے لیکن جوں ہی دو مارچ کو وہ وہاں شفٹ ہوئے تب سے لاپتہ ہیں۔ ان کے دوستوں  نے انہیں کال کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا فون بند رہا، جس کے بعد انھیں مجبوراً مقامی پولیس سے رابطہ کرنا پڑا۔

شروع میں پولیس نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور کہا سوئیڈن میں لوگوں کا 'لاپتہ' ہونا نارمل ہے۔ پولیس نے انہیں بتایا کہ یہاں لوگ زندگی کے شور شرابے سے تنگ آکر کچھ وقت کی خاموشی کے لیے جان بوجھ کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور خود کو لاپتہ کرتے ہیں۔

ساجد کے دوست تاج بلوچ نے کہا کہ ہم نے پولیس کو بتایا کہ ہم بلوچوں کا 'لاپتہ' ہونا آپ کے رضاکارانہ طور پرلاپتہ ہونے سے خاصا مختلف ہے اور جب ہمارے لوگ لاپتہ ہوتے ہیں تو یہ کوئی نیک شگون نہیں ہوتا۔

یوں سوئیڈش پولیس نے تین مارچ کو ساجد کے لاپتہ ہونے کا مقدمہ درج کیا اورتفتیش شروع کی۔ اس دوران ان کے اہل خانہ نے یہ سوچ کر خبرکو ساجد کے دوستوں اورعوام سے دبائے رکھی کہ شاید پولیس انہیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائے، لیکن تین ہفتے گزرنے کے باوجود پولیس اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں کرپائی ہے جس کی وجہ سے ان کے گھر والوں نے بالآخر فیصلہ کیا کہ وہ اس معاملے کو میڈیا، صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کو آگاہ کریں گے تاکہ وہ بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرک ے ایک ہونہار اور باصلاحیت صحافی کو بازیاب کرنے کے لیے اہلکاروں پر دباؤ ڈالیں۔ 

مشکل کی اس گھڑی میں ہماری نیک تمنائیں ساجد حسین کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ ان کا یورپ سے لاپتہ ہونا بلوچوں کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچ جائیں تو کہاں جائیں؟

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر