اسلام آباد کے سیل شدہ علاقوں میں گھومنے پرمجھے روکا کیوں نہیں گیا؟

پانچ دن گزر جانے کے بعد میں نے صورت حال جاننے کے لیے اس علاقے کا رخ کیا، جس کے بارے میں ڈر تھا کہ کہیں وہ اسلام آباد کا ووہان نہ بن جائے۔

اسلام آباد کے علاقے بہارہ کہو میں کرونا وائرس کے 16 مثبت کیسز آنے کے بعد 25 مارچ کو اس علاقے کو سیل کر دیا گیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’کوٹ ہتھیال اور بہارہ کہو کو پوری طرح سیل کیا جا چکا ہے‘ اور ’بہارہ کہو روڈ بھی ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کی جا چکی ہے‘۔ کوٹ ہتھیال بہارہ کہو کے اندر ہی ایک محلہ ہے۔

5 دن گزر جانے کے بعد میں نے اس علاقے کا رخ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ جس علاقے کے بارے میں ڈر تھا کہ کہیں وہ اسلام آباد کا ووہان نہ بن جائے، وہاں جا کر دیکھا جائے کہ موجودہ صورت حال کیا ہے۔

تمام احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے اور کسی بھی صورت گاڑی سے نہ نکلنے کا منصوبہ بنا کر میں بہارہ کہو کی طرف نکلا تو بہارہ کہو پہنچنے سے پہلے ہی پولیس اور رینجرز کی چیک پوسٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ چیک پوسٹ پر بہارہ کہو جانے والے افراد سے ان کا بہارہ کہو جانے کا مقصد پوچھا جا رہا تھا۔

میری باری آئی تو میں نے اپنا میڈیا کارڈ صرف ایک سیکنڈ کے لیے ہی پولیس کو دکھایا تو انہوں نے مجھے جانے دیا۔ اب یہ پتہ نہیں کہ پولیس والے کو ایک سیکنڈ میں میرے کارڈ پر لکھا کچھ نظر بھی آیا یا نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بہارہ کہو اسلام آباد کا نواحی علاقہ ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کے عقب میں واقع بہارہ کہو ایک گنجان آباد علاقہ ہے اور اسلام آباد سے اگر مری کی طرف جائیں تو رستے میں آتا ہے۔

بہارہ کہو کی مرکزی شاہراہ پر تمام دکانیں اور تجارتی مراکز بند ہیں۔ صرف ایک دو کریانے کی دکانیں یا میڈیکل سٹور کھلے ہیں۔ مقامی افراد کے باہر نکلنے پر کوئی پابندی عائد نہیں۔ لوگ با آسانی باہر گھوم رہے ہیں اگرچہ پبلک ٹرانسپورٹ کو سڑکوں پر آنے کی اجازت نہیں۔ اسلام آباد کے دیگر علاقوں میں پٹرول پمپ کھلے ہیں مگر بہارہ کہو میں پٹرول پمپ بند نظر آتے ہیں۔

کوٹ ہتھیال بہارہ کہو کا وہ محلہ ہے جس کی مسجد میں تبلیغی جماعت کے وفد کو کرونا وائرس ہونے کے باعث محلے کے افراد میں بھی پھیلا۔ مجھے خدشہ تھا کہ کرونا وائرس کیسز آنے کے بعد اور ڈپٹی کمشنر کے علاقے کو سیل کرنے کے فیصلے کے بعد علاقے میں داخل ہونا ممکن نہیں ہو گا۔ مگر حیرت انگیز طور پر نہیں تھا۔

پولیس نے کوٹ ہتھیال جانے والی سڑک پر پولیس کا ایک ٹرک ضرور کھڑا کیا ہوا ہے اور وہاں تین سے چار پولیس والے بھی تعینات ہیں مگر مجھے گاڑی میں داخلے کے وقت کسی بھی پولیس والے نے نہیں روکا۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں بھی چند مقامی افراد باہر گھومتے نظر آئے۔ اگرچہ ان کی تعداد مرکزی بہارہ کہو روڈ کے مقابلے میں کم تھی۔

میں کوٹ ہتھیال میں داخل تو ہو گیا تھا مگر اب مجھے ڈر تھا کہ کیوں کہ میں ایک سیل شدہ علاقے سے ہو کر آیا ہوں تو اب مجھے وہاں سے باہر نکلتے وقت روکا جائے اور پوچھ پرتیت کی جائے گی۔ اور ایسا ہوا بھی ایک پولیس والے نے عمومی طور پر مجھ سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں تو میں نے جواب دیا کہ میڈیا سے تعلق ہو اور اسلام آباد جا رہا ہوں۔

پولیس والے نے ایسے جانے دیا جیسے میڈیا والوں کو کرونا ہوتا ہی نہیں۔ کوٹ ہتھیال کی مین چیک پوسٹ جہاں پر پولیس نے ٹرک کھڑا کیا ہوا ہے اور چار پولیس اہلکار تعینات ہیں، وہاں پر واپس کے وقت کسی نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا۔ یہی صورت حال بہارہ کہو سے واپسی پر موجود دو چیک پوسٹوں کی تھی جہاں میں نے ایک ایک سیکنڈ کے لیے اپنا میڈیا کارڈ دکھایا اور مجھے جانے دیا گیا۔

بہارہ کہو کے لیے نکلنے سے پہلے میں نے بہارہ کہو کے ایک مقامی صحافی فہیم عباس سے ٹیلی فون پر جاننے کی کوشش کی کہ علاقے کی صورت حال کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے پانچ دن سے لاک ڈاؤن میں ہیں اور انہیں علاقے سے باہر جانے نہیں دیا جا رہا۔ فہیم عباس کا گھر کوٹ ہتھیال سے چند میٹر کے فاصلے پر ہے۔

اس سب کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا انتظامیہ نے وائرس کی روک تھام کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ کافی ہیں؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان