’گندم کی کٹائی کے دوران بڑا مسئلہ سماجی دوری کو یقینی بنانا ہو گا‘

پاکستان میں یہ صورت حال اس لیے گمبھیر شکل اختیار کر سکتی ہے کیونکہ رواں ماہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں گندم کی کٹائی شروع ہونا ہے۔

گندم پاکستانیوں کی خوراک کا 60 فیصد ہے جبکہ ایک پاکستانی اوسطاً 125 کلوگرام گندم سالانہ استعمال کرتا ہے (اے ایف پی)

کرونا وائرس کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاؤن کے باعث دوسرے شعبوں کی طرح زراعت اور اس سے جڑے لوگ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں یہ صورت حال اس لیے گمبھیر شکل اختیار کر سکتی ہے کیونکہ رواں ماہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں گندم کی کٹائی شروع ہونا ہے۔

یاد رہے کہ ملک میں گذشتہ تقریباً دو ہفتوں سے جزوی لاک ڈاؤن ہے، جس کے تحت عوام کو گھروں میں رہنے اور اشد ضرورت کے تحت ہی باہر نکلنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

لاک ڈاؤن کا مقصد لوگوں کے درمیان میل ملاپ کو کم کرنا ہے۔ جو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے صوبوں اور شہروں کے درمیان زمینی اور فضائی راستے بند ہیں جبکہ بین الاقوامی سرحدوں پر بھی آمدورفت کی اجازت نہیں ہے۔

گندم کی فصل اور کٹائی

گندم پاکستانیوں کی خوراک کا 60 فیصد ہے جبکہ ایک پاکستانی اوسطاً 125 کلوگرام گندم سالانہ استعمال کرتا ہے۔ اس لیے گندم پاکستان میں اہم غذائی فصل ہے۔

نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت کے مطابق گندم مجموعی طور پر 8.7 ملین ہیکٹرز رقبے پر کاشت کی جاتی ہے۔ جو کسی بھی فصل کے زیر کاشت رقبے سے زیادہ ہے۔

سب سے زیادہ گندم صوبہ پنجاب میں کاشت کی جاتی ہے، جہاں گندم کا زیر کاشت رقبہ چھ ملین ہیکٹرز ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) کے سینیئر ڈائریکٹر ڈاکٹر سکندر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس سال گندم کی پیداوار کا ہدف 27 ملین ٹن رکھا گیا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ ہدف پورا ہو جائے گا جبکہ گذشتہ سال کی گندم میں سے بھی ایک آدھ ملین ٹن بچ جائے گا۔

پاکستان میں گندم کی سالانہ کھپت مجموعی طور پر 26 ملین ٹن ہے۔

ڈاکٹر سکندر خان کے مطابق سندھ جہاں گندم کی کٹائی شروع ہو گئی ہے اور وہاں سے اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ پنجاب میں بھی پیداوار بہتر ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں گندم کی کٹائی 15 اپریل سے شروع ہو گی جبکہ دوسرے صوبوں میں اس سے بھی بعد میں یہ سلسلہ شروع ہو گا۔

ڈاکٹر سکندر خان کا کہنا تھا کہ ملک میں اس سال درجہ حرارت کم رہنے کے باعث گندم کی کٹائی کچھ دن دیر سے کی جا رہی ہے۔

گندم کی کٹائی اور سماجی دوری

ڈاکٹر سکندر خان نے اتفاق کیا کہ کرونا وائرس کی وبا اور اس کے نتیجے میں لگنے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے گندم کی کٹائی میں مشکلات سامنے آ سکتی ہیں۔

گندم کی کٹائی کے دوران سب سے بڑا مسئلہ سماجی دوری کو یقینی بنانا ہو گا۔

گندم کی کٹائی کسانوں کے لیے جشن سے کم نہیں ہوتا اور اس دوران  کھیتوں میں بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے کام کرتے ہیں جن کے درمیان فاصلہ رکھنا کافی مشکل ہو سکتا ہے۔

اس دوران دیہاتی ایک دوسرے کے گھروں کھیتوں اور کھلے مقامات پر بھی گپ شپ کے لیے بیٹھتے ہیں اور ان کا ملنا جلنا نسبتاً زیادہ ہو جاتا ہے۔

ایسے میں سماجی دوری برقرار رکھنا کافی مشکل ہو گا۔

اگر اس موقع پر سماجی دوری کا خیال نہ رکھا گیا تو کرونا وائرس جو اس وقت پاکستان میں عمومی طور پر شہروں تک محدود ہے دیہی علاقوں کا رخ کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر سکندر خان نے کہا کہ کسانوں کو کٹائی کے دوران میل ملاپ کم رکھنا ہو گا۔ وہ کوشش کریں کہ زیادہ تعداد میں ایک جگہ اکٹھے نہ ہوں۔ بہت زیادہ ہاتھ نہ ملائیں اور صفائی کا خصوصاً خیال رکھیں۔

انہوں نے گندم کی کٹائی میں شامل مزدوروں کو کھیتوں میں ایک دوسرے سے دور رہ کر کام کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ 

پنجاب ایگریکلچر ایکسٹینشن ڈیپارٹمنٹ نے اس سلسلے میں کسانوں کو ہدایات جاری کی ہیں۔ جن میں گندم کی کٹائی کے دوران مخصوص ایس او پیز پر عمل کرنے کی ہدایات شامل ہیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر ایگریکلچر ایکسٹینشن پنجاب محمد سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر مہم چلائی گئی ہے تاکہ کسان گندم کی کٹائی کے دوران سماجی دوری اور دوسری احتیاطوں پر عمل کریں۔

تاہم انہوں نے اتفاق کیا کہ کرونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن کے باعث مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

گندم کی کٹائی اور لاک ڈاؤن

گندم کی کٹائی کے دوران سندھ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے چھوٹے کسان دونوں صوبوں میں مزدوری تلاش کرتے ہیں جبکہ دونوں صوبوں کے اندر بھی مزدوروں کی نقل و حرکت ہوتی ہے۔

خصوصاً پنجاب سے کسان مزدوروں کی بڑی تعداد گندم کی کٹائی کے موسم میں سندھ کام کرنے جاتی ہے۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے بین الصوبائی اور شہروں کے درمیان زمینی راستے بند ہونے کے باعث ان مزدوروں کو آمدورفت میں مسائل پیش آسکتے ہیں۔

خاص طور پر سندھ میں لاک ڈاؤن سخت ہونے کے باعث ان کسانوں کی نقل و حرکت میں خلل پڑ سکتا ہے۔

تاہم سندھ کے وزیر برائے لوکل گورنمنٹ سعید غنی نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ ضروری اشیا اور لوگوں کی نقل و حرکت میں نرمی برتی جائے گی۔

گندم کی کٹائی میں استعمال ہونے والی بڑی مشینیں (مثلا تھریشر وغیرہ) اکثر ایک ضلع سے دوسرے ضلع لے جائی جاتی ہیں جبکہ بعض اوقات ان کی حرکت بین الصوبائی بھی ہوتی ہے۔

لاک ڈاؤن کے باعث ان مشینوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ جس سے گندم کی کٹائی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

منگل کے روز وفاقی کابینہ نے سندھ میں گڈز ٹرانسپورٹ پر پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور وزیر اعظم نے اس سلسلے میں رینجرز کو اقدامات اٹھانے کی ہدایات جاری کیں۔

تاہم سندھ حکومت نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ٹرکوں میں انسانی سمگلنگ کے واقعات سامنے آنے کے بعد سختی کی جارہی ہے۔

سعید غنی نے اس موقع پر کہا تھا کہ گاڑیوں خصوصاً گڈز ٹرانسپورٹ کی ضروری نقل و حرکت پر سختی نہیں برتی جائے گی۔

ڈاکٹڑ سکندر کا کہا کہ تمام تر مشکلات کے باعث کسان کٹائی میں خلل نہیں آنے دیں گے اور گندم کی کٹائی احسن طریقہ سے پایہ تکمیل کو پہنچے گی۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا لاک ڈاؤن کے باعث گندم کی پیداوار میں کمی واقع ہو سکتی ہے ان کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں جب گندم کی کٹائی کے عروج کے دوران درجہ حرارت کافی زیادہ ہو گا اور عین ممکن ہے اس کے باعث کرونا وائرس کی وبا خود ہی ختم ہو جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان