20 دن سے کچھ نہیں کمایا، فاقوں کی نوبت ہے: افغان پناہ گزین

چالیس سال سے پاکستان میں آباد افغان پناہ گزیز عبدالقادر کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی دنوں سے کمائی نہ ہونے کے باعث وہ گھر کا کرایہ اور بل ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

جنوری 2017 میں چمکنی میں ایک یو این ایچ سی آر سینٹر کے باہر افغان پناہ گزین رجٹریشن کے لیے قطار میں انتظار کرتے ہوئے (اے ایف پی )

’افغان جنگ کے بعد پشاور آکر یہاں پر جالیس سال گزارے ہیں لیکن آج تک کسی کے سامنے جھولی نہیں پھیلائی تھی اور نہ ایسا دن آیا تھا کہ گھر میں ایک وقت کھانے کے لیے بھی کچھ نہ ہو لیکن ابھی کرونا وائرس کی وبا نے ہمیں اتنا مجبور کر دیا کہ مخیر حضرات سے امداد کی اپیلیں کر رہے ہیں۔‘

یہ کہنا تھا پشاور کی افغان کالونی میں رہائش پذیر عبدالقادر کا جو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد بندشوں کی وجہ سے پریشان ہیں اور گھر میں نوبت فاقوں تک آگئی ہے۔

عبدالقادر کا تعلق افغانستان کے صوبے ننگرہار سے ہے اور وہ 40 سال سے پشاور میں رہائش پذیر ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ گذشتہ تین سالوں سے پشاور میں ٹیکسی چلا کر اس سے حاصل ہونے والی کمائی سے گھر کا خرچہ چلا رہے ہیں۔ تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے جزوی لاک ڈاؤن ہے اور بغیر ضرورت باہر نکلنے پر پابندی ہے جس کی وجہ سے وہ ٹیکسی نہیں چلا سکتے۔

ان کا کہنا تھا: ’ٹیکسی مالک نے بھی مجھ سے ٹیکسی لے لی ہے کیونکہ وہ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ باہر نکلنے پر پابندی ہے تو ایسا نہ ہو کہ ان کی گاڑی پولیس لے کر چلی جائے۔‘

عبدالقدار کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں اور وہ گھر کے واحد کفیل ہیں۔ ’اگر میں نے کچھ کمایا تو گھر کا چولہا جلتا ہے ۔ لیکن ابھی حالات ایسے آئے ہیں کہ گھر میں ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہوتا۔‘

انہوں نے بتایا کہ پانچ دن سے گھر میں نہ آٹا ہے نہ گھی اور نہ ہی ضرورت کی دیگر اشیا جس کی وجہ سے سارے گھر والے پریشان ہیں۔ ’پڑوس کے گھر والے کبھی کبھی کھانا بھیجتے ہیں لیکن وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ حکومت کی طرف سے کوئی راشن مل گیا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ نہ حکومت نے پوچھا ہے اور نہ کسی قسم کی امداد دی ہے جس سے گھر کا چولہا جلے  اور اگر حکومت کی جانب سے کوئی راشن کا بندوبست بھی کیا گیا ہے تو انہیں اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں۔

عبدالقادر کو صرف گھر میں کھانے کا بندوبست نہیں بلکہ گھر کا کرایہ اور بلز بھی ادا کرنے ہوتے ہیں۔ ان کا مہینے کا کرایہ آٹھ ہزار روپے ہے۔ ’ ابھی مالک مکان نے کرایہ بھرنے کا بتایا ہے لیکن میں نے ان کو کہا کہ ہمارے گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے تو کرایہ کیسے دے دوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح انہوں بجلی اور گیس کا بل پچھلے مہنے سے ادا نہیں کیا کیونکہ بیس دنوں سے انہوں نے ایک روپیہ بھی نہیں کمایا۔

’اس سے پہلے میں دن کے 1200  سے تک کماتا تھا جس سے گزارا ہوجاتا تھا لیکن ابھی حالات ایسے ہیں کہ ہم تو مسجد بھی نہیں جا سکتے کیونکہ مسجد جانے پر بھی پابندی ہے توٹیکسی چلانے کی کیسی اجازت مل سکتی ہے۔‘

یونائٹڈ نیشنز ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں  دس لاکھ تک افغان مہاجرین آباد ہیں۔ پورے ملک میں رجسٹرڈ افغان پناہ گزین  کی تعداد 15 لاکھ تک ہے جبکہ غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزین کی تعداد مزید 15 لاکھ تک بتائی جاتی ہے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے کرونا وائرس کے بعد بندشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال میں  افغان مہاجرین کے حوالے سے ابھی تک کوئی خاطر خواہ پلان مرتب نہیں کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے راشن تقسیم کرنے کے لیے جو ویب سائٹ گئی ہے ہے، جہاں پر مستحقین اپنی رجسٹریشن کروا سکتے ہیں، اس میں قومی شناختی کارڈ کا نمبر اور ساتھ میں ضلع و تحصیل کا نمبر لکھنا ضروری ہے۔چونکہ افغان پناہ گزین کی ایک بڑی تعداد کے پاس  پروف آف رجسٹریشن کارڈ موجود نہیں اس لیے وہ اس پورٹل پر اپنے آپ کو رجسٹر بھی نہیں کروا سکتے جس کی وجہ سے ان پناہ گزینوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشاور بورڈ بازار افغان پناہ گزینوں کے کاروبار کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ وہاں پر افغان پناہ گزینوں کے یونین کے عہدیدار احمد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے مستحق افغان پناہ گزیوں کو کسی قسم کی امداد ابھی تک نہیں دی گئی۔

انہوں نے بتایا:’ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت راشن کی تقسیم کا عمل شروع کیا ہے جس میں ہم مستحق افغان پناہ گزینوں سمیت پاکستانیوں میں بھی راشن تقسیم کر رہے ہیں لیکن چونکہ ان پناہ گزینوں کی تعداد  لاکھوں میں ہے اور صوبے کے مختلف اضلاع میں موجود ہیں تو ان تک پہنچا ہمارے لیے مشکل ہے لیکن حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور  کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’میرے ساتھ اپنی دکان میں 15 تک افغان کاریگر کام کرتے تھے جو روزانہ اجرت لیتے تھے لیکن ابھی وہ سب شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ان کے پاس کمانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے کیونکہ باہر نکل کر وہ کام بھی نہیں کر سکتے۔‘

یو این ایچ سی آر کیا کر رہا ہے؟

یونائٹڈ نیشنز ہائی کمیشن برائے مہاجرین پوری دنیا میں پناہ گزینوں کے حالات کو دیکھنے والا اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے۔ گذشتہ ہفتے وفاقی وزیر برائے  فرنٹئیر ریجن شہریار آفریدی نے  سابق کرکٹر شاہد آفریدی کے ساتھ کوہاٹ میں افغان پناہ گزین کیمپ کا دورہ کیا اور وہاں پر راشن تقسیم کیا۔

اس حوالے سے شہریار آفریدی نے ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا کہ یو این ایچ سی آر کو افغان پناہ گزینوں کی مدد کے لیے آگے آنا چاہیے کیونکہ یہ پناہ گزین بھی کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔

یو این ایچ سی آر کی جانب سے  28 مارچ کو جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے پاکستان حکومت کو افغان پناہ گزینوں کی مدد کے لیے میڈیکل سپلائیز فراہم کی ہیں جس میں سینٹری کپڑے اور صابن سمیت سینیٹائزر اور دیگر اشا شامل ہیں۔

پریس ریلیز میں افغان پناہ گزینوں کے لیے راشن یا کسی قسم کی خوراک کا ذکر نہیں ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق دیگر اشیا اگلے ہفتے متعلقہ صوبوں کے حوالے کی جائیں گی ۔

ادارے کے پاکستان میں ترجمان قیصر آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو  بتایا کہ یو این ایچ سی آر پاکستانی حکومت کے پلان، جس کو نینشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی اور وفاقی وزارت صحت لیڈ کر رہے ہیں، کو سپورٹ کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں موجود پناہ گزین بھی اسی پلان کا حصہ ہیں جس کی یو این ایچ سی آر  حکومت کے متعلقہ محکموں کے ساتھ سپوڑت پہلے سے شروع کر چکی ہے۔

انہوں نے بتایا: ’یو این ایچ سی آر وزیر اعظم عمران خان کے ہدایات کا خیر مقدم کرتا ہے جنہوں نے متعلقہ محکوموں کو  بتایا ہے کہ افغان پناہ گزین سمیت پاکستان میں عارضی طور پر بے گھر افراد کی  ریلیف پیکج دینے میں مدد کریں اور ان کی بھی جو کرونا وائرس کی وبا کہ وجہ سے اپنے گھروں تک محدود ہو گئیں ہیں۔ ‘

قیصر آفریدی کا کہنا تھا کہ جب سے وبا پھوٹ پڑی ہے تو یو این ایچ سی آر کے ٹیمیں افغان پناہ گزین کے پاس پہنچ گئی ہیں تاکہ ان کو صفائی اور صحت کے حوالے سے پیغامات پہنچائےجائیں تاکہ وہ اس وبا سے محفوظ رہ سکیں۔

اس حوالے سے صوبائی مشیراطلاعات اجمل وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کرونا وائرس کی وبا کے بعد افغان پناہ گزینوں کے مشکلات پر وہ وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری سے بات کریں گے اور اس کے بعد وہ تفصیلی موقف پیش کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان