ڈینیل پرل کیس: ’انصاف کی دھجیاں اڑ گئیں‘

مرکزی ملزم شیخ عمر کی سزائے موت ختم کرنے پر امریکہ میں شدید ردعمل، سندھ حکومت نے شیخ عمر اور دیگر تین افراد کو تین ماہ کے لیے جیل میں بند کر دیا۔

امریکہ کے مشہور اخبار ’وال سٹریٹ جرنل‘کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ  ڈینیل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی سے اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ مذہبی انتہا پسندی پر ایک خبر پر کام کرہے تھے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے جمعرات کو امریکی روزنامے ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے جنوبی ایشیا بیورو چیف ڈینیل پرل کے قتل کیس کے مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ عرف شیخ عمر کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل کرنے اور مقدمے میں ملوث دیگر تین افراد کی رہائی پر امریکی حکومت، صحافتی اداروں اور مقتول صحافی کے اہل خانہ اور پیشہ وارانہ ساتھیوں نے مایوسی ظاہر کرتے ہوئے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ(سٹیٹ ڈپارٹمنٹ) کی اعلیٰ اہلکار ایلس ویلز نے کہا ’یہ فیصلہ ہر جگہ دہشت گردی کا شکار ہونے والے انسانوں کی توہین ہے اور جو لوگ ڈینیل پرل کے قتل کے ذمہ دار ہیں، انھیں پوری سزا ملنی چاہیے۔‘
دوسری طرف ڈینیل پرل کے والد پروفیسرجوڈیا پرل نے فیصلے کو 'انصاف کا مذاق اڑانا' قرار دیتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا ’جو بھی شخص صحیح اور غلط  میں تھوڑا فرق اور تمیز کرسکتا ہے، وہ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی توقع کرے گا۔‘
امریکہ محکمہ خارجہ نے کہا کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ حکومت پاکستان نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 
’انصاف کی دھجیاں‘

واشنگٹن میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ڈینیل پرل پروجیکٹ کی ڈائریکٹر عصرہ نعمانی نے، جنھوں نے ڈینیل پرل کے ساتھ بطور صحافی بھی وال سٹریٹ جرنل میں کام کیا، انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انھیں یہ فیصلہ سن کر شدید دھچکہ لگا اور وہ اس فیصلے کے خلاف ہر محاذ پر آواز بلند کریں گی۔ 

انھوں نے کہا ’اس فیصلے نے انصاف کی دھجیاں اڑا دی ہیں‘ اور یہ کہ انھوں نے یہ معاملہ فوری طور پر پاکستان کے وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے ساتھ فون پر اٹھایا ہے۔

عصرہ نے الزام لگایا کہ اس فیصلے کے پیچھے اعجاز شاہ کا ہاتھ ہو سکتا ہے کیونکہ شیخ عمر نے خود کو پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے اعجاز شاہ کے حوالے کیا تھا اور پاکستان کے ایک خفیہ ادارے نے انھیں ایک ہفتے تک اپنے پاس رکھا تھا۔ 
’مجھے یقین نہیں آتا کہ پاکستان میں عمران خان کے دورِ حکومت میں اتنی بڑی ناانصافی ہوسکتی ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب دنیا ایک عالمی وبا سے نمٹ رہی ہے، عدالیتں اور روزمرہ کے باقی کام ماند پڑے ہیں۔
’ڈینیل پرل کے اہل خانہ اور دوستوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا کوئی فیصلہ ہونے والا ہے۔ ہم سب حیرت کا شکار ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ شیخ عمر پاکستانی سماج کے لیے بھی ایک خطرہ ہیں اور انہیں ایک دن کے لیے بھی آزاد نہیں ہونا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انصاف سے انکار

صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم عالمی تنظیم 'دی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' (سی پی جے) کے ایشیا کوارڈینیٹرسٹیو بٹلر نے واشنگٹن میں اپنے ایک بیان میں کہا 'یہ فیصلہ انصاف فراہم کرنے سے انکار کے مترادف ہے اور استغاثہ کو اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنی چاہیے کیونکہ شیخ عمر کو اس لیے سزا ہوئی تھی کہ وہ براہ راست ڈینیل پرل کے اغوا میں ملوث تھے، جو بعد میں ان کے قتل کی وجہ بنا۔'

صحافیوں کی ایک اور تنظیم ’رپورٹرز وید آؤٹ بارڈرز‘ نے اس فیصلے کو 'بے ربط' قراردیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ ڈیینل پرل کے سزا یافتہ قاتلوں کی رہائی سے ظاہرہوتا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں پر تشدد کرنے والوں کو صحیح معنوں میں سزا نہیں ملتی۔ 
بیان میں مزید کہا گیا کہ اگرچہ ان کی تنظیم سزائے موت کے خلاف ہے لیکن اس مقدمے میں جو فیصلہ کیا گیا اس میں تسلسل نہیں کیونکہ فیصلے میں شیخ عمر کے جرم کا مرتکب ہونے کا اعتراف تو کیا گیا لیکن اس کے باوجود انھیں جو سزا پہلے دی گئی تھی اسے ختم کر دیا گیا۔
'یہ فیصلہ ڈینیل پرل کے اہل خانہ کو انصاف نہ دینے کے مترادف ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان میں جو لوگ صحافیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں کرتے ہیں وہ آزادی سے گھومتے پھرتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔'
نظر ثانی کی اپیل
نیشنل پریس کلب واشنگٹن اور نیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ نے بھی اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ پاکستان کی سپریم کورٹ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے گی۔ 
نیشنل پریس کلب نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ڈینیل پرل کی ہلاکت نے 'ہمیں آزادیِ صحافت کے لیے لڑنے کا جذبہ فراہم کیا۔'
شیخ عمر، دیگر کو تین ماہ حراست میں رکھنے کا فیصلہ
سندھ حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد شیخ عمر اور رہائی پانے والے دیگر تین افراد کو تین ماہ تک حراست میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
نامہ نگار امر گروڑو کے مطابق محکمہ پولیس کے ذیلی ڈیپارٹمنٹ سی آئی اے نے ایک خط لکھ کر چاروں ملزموں کو حراست میں رکھنے کی درخواست کی تھی، جس کے بعد محکمہ داخلہ سندھ نے اس حوالے سے لیٹر جاری کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان