سنکیانگ کے مسلم حراستی مراکز ’آہستہ آہستہ‘ ختم ہوجائیں گے: چین

عالمی برادری کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے سنکیانگ حکومت کے چیئرمین شہرت ذاکر نے ان کیمپوں کو ’ملازمت کے تربیتی مراکز‘ قرار دے دیا۔

اقوام متحدہ کے ایک پینل کی جانب سے لگائے گئے اندازے کے مطابق تقریباً دس لاکھ اویغور اور دیگر مسلمان ترک اقلیتوں کے افراد کو صوبہ سنکیانگ کے ان حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ فائل فوٹو: اے پی

بیجنگ: ایک چینی عہدیدار نے صوبے سنکیانگ میں قائم حراستی کیمپوں پر ہونے والی عالمی برادری کی شدید تنقید کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ’ملازمت کے تربیتی مراکز‘ قرار دیا ہے، جن کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’جس دن معاشرے میں ان کی ضرورت ختم ہوجائے گی‘ تو یہ ’آہستہ آہستہ ختم‘ ہوجائیں گے۔

اقوام متحدہ کے ایک پینل کی جانب سے لگائے گئے اندازے کے مطابق تقریباً دس لاکھ اویغور اور دیگر مسلمان ترک اقلیتوں کے افراد کو صوبہ سنکیانگ کے ان حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔

ایک امریکی عہدیدار نے اس صورتحال کو ’خوفناک‘ قرار دیا۔

تاہم بیجنگ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لوگ ان ‘پیشہ ورانہ تربیتی مراکز‘ میں شرکت کر رہے ہیں، تاکہ اس علاقے میں پروان چڑھنے والے انتہاپسند خیالات سے چھٹکارا پاسکیں، جن کی وجہ سے حالیہ برسوں میں کئی فسادات اور حملے ہوئے۔

خبر رساں ادارے  اے ایف پی کے مطابق چین کی سالانہ پارلیمنٹ میٹنگ کی سائیڈ لائن پر سنکیانگ حکومت کے چیئرمین شہرت ذاکر نے صحافیوں کو بتایا، ’ہمارے تعلیمی اور تربیتی مراکز ہماری ضروریات کے مطابق قائم کیے گئے ہیں۔ جو طلبہ یہاں سیکھنے کے لیے آتے ہیں، وہ اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔‘

انہوں نے ان مراکز میں موجود لوگوں کی تعداد بتائے بغیر مزید کہا، ’مجموعی طور پر  ان تعلیمی مراکز میں لوگوں کی تعداد کم سے کم ہونی چاہیے اور جس دن معاشرے کو ان کی ضرورت نہیں ہوگی، یہ مراکز رفتہ رفتہ ختم ہوجائیں گے۔‘

دوسری جانب ان مراکز کے سابق قیدیوں کا کہنا ہے کہ انہیں جن خطاؤں کی وجہ سے قید کیا گیا، ان میں لمبی داڑھی رکھنا، نقاب کرنا یا سوشل میڈیا پر اسلامی تہواروں کی مبارکباد دینا شامل ہیں۔

نقادوں کا کہنا ہے کہ ان مراکز میں رکھے گئے اویغور مسلمانوں کی ایک مہم کے تحت برین واشنگ کی گئی، تاکہ انہیں اسلام سے دور کرکے چینی معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاسکے۔

سنکیانگ حکومت کے چیئرمین شہرت ذاکر نے بھی ’ایسے افراد‘ کا ذکر کیا، جنہوں نے ان مراکز میں موجود لوگوں کو متاثر کیا۔

چین کے مغربی خطے میں واقع سنکیانگ کا دورہ کرنے والے صحافیوں کو بھی رپورٹنگ کے دوران مقامی انتظامیہ کی جانب سے ہراساں کیے جانے یا نگرانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تاہم شہرت ذاکر نے اس تاثر کو رد کرتے ہوئے صحافیوں کو سنکیانگ کا دورہ کرنے کی دعوت دی اور کہا کہ ’ایسا بالکل نہیں ہے۔’

دوسری جانب مذہبی آزادی سے متعلق امریکی سفیر سیم براؤن بیک نے صحافیوں سے گفتگو میں سنکیانگ کی صورتحال کو بہت المناک اور خوفنا ک قرار دیا۔

چین کا مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ، جس کی سرحدیں پاکستان اور افغانستان سمیت متعدد ممالک سے ملتی ہیں، ایک طویل عرصے سے پرتشدد واقعات کا مرکز رہا ہے، جس کے حوالے سے چین کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک منظم ’دہشت گردی‘ کی تحریک ہے، جو اس خطے کی چین سے آزادی چاہتی ہے۔

چین کی جانب سے اس خطے میں بڑے پیمانے پر سکیورٹی کریک ڈاؤن بھی کیے گئے، جن کے حوالے سے حکومت کا کہنا ہے کہ ان کی وجہ سے دو سال سے زائد عرصے سے پرتشدد واقعات نہیں ہوئے۔

تاہم بہت سے اویغور مسلمانوں اور سنکیانگ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پرتشدد واقعات چینی ثقافتی اور مذہبی پابندیوں کے نتیجے میں غصے کے اظہار کے طور پر جنم لیتے ہیں جبکہ بیجنگ اس خطے پر اپنے مضبوط کنٹرول کو مستحکم کرنے کے لیے دہشت گردی کا نام بھی استعمال کرتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا