پاکستانی یونیورسٹیوں کے طلبہ کا کرونا پر خصوصی میگزین

کورونا وائرس آگاہی مہم کے لیے ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کی ایک اہم کاوش

سائنسیا پاکستان میگزین کا سرورق۔

پاکستان میں المیہ یہ رہا ہے کہ سائنس، صحت اور سائنسی تعلیم و تحقیق کبھی ہماری حکومتوں کے ایجنڈے میں سرفہرست نہیں رہیں۔ لہذا میڈیا کا سارا زور ہمیشہ سے سیاست پر ہی رہا اور مین سٹریم میڈیا میں اس وقت ایسے ان شعبوں کے ماہر صحافیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

پاکستان میں عام افراد وائرس اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے سے متعلق صحیح معلومات نہیں رکھتے اور زیادہ تر سنی سنائی باتوں، میتھ (خرافات) اور اڑتی خبروں پر یقین کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں میڈیا پر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان خرافات کو ختم کرنے کی کوشش کرے اور عوام کو درست اور مصدقہ معلو مات بروقت فراہم کی جائیں۔ ہمارے زیادہ تر ٹی وی چینلز اور میڈیا آؤٹ لٹس اس ذمہ داری کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ سوشل میڈیا پر چکراتی ہر فیک نیوز بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کی جا رہی ہے۔

اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے پاکستان بھر کی متعدد اہم یونیورسٹیوں کے طلبہ نے اشتراک سے کورونا وائرس پر ایک میگزین ایڈیشن کا اجرا کیا ہے جس میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ، سدباب اور ملکی و عالمی معیشت پر اس کے دور رس منفی اثرات، سماجی و معاشرتی زندگی میں آنے والے تغیر و تبدل کے ساتھ ہی ان خرافات پر بھی آرٹیکلز اور کہانیاں شامل کی ہیں جو اس وقت ہمارے معاشرے میں وائرس  کے حوالے سے شعور و آگاہی پیدا کرنے میں حائل ہیں۔

اس میگزین میں تمام تر مضامین’پیر ریویوڈ‘ انٹرنیشنل میگزین نیچر، سائنٹفک امیریکن، نیشنل جیوگرافک اور سائنس الرٹ وغیرہ جیسے مستند ذرائع سے معلومات لے کر شامل کی گئی ہیں۔ میگزین کی ایڈیٹوریل ٹیم نے انتہائی عرق ریزی سے فیکٹ چیک کیے ہیں جس میں طلبا کے سینیئر اساتذہ اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے بھی ان کی بھرپور مدد کی ہے۔

جن یونیوسٹیوں نے اس میگزین ایڈیشن میں معاونت کی ہے ان میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد، ویسٹ میڈیسن کالج پشاور، لمز، یو ای ٹی لاہور، کراچی یونیورسٹی، بلوچستان یونیورسٹی، لاہور یونیورسٹی آف ویٹرنٹی اینڈ اینیمل میڈیسن، لاہور کالج آف کامرس، فیصل آباد یونیورسٹی اور ملک کے دیگر شہروں کی درس گاہیں شامل ہیں۔

اس میگزین ایڈیشن میں ناصرف کرونا بلکہ دیگر مہلک وبائی امراض، جیسے پولیو، ہیپا ٹائیٹس، انفلوئنزا، سمال پوکس(چیچک)، سپینش فلو وغیرہ پر بھی مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ تاکہ عوام و خواص جان سکیں کہ وائرس انسانی زندگی اور انسانی ارتقا کا ایک اہم حصہ رہے ہیں اور صدیوں تک طاعون کی مختلف اقسام ملکوں و پر ملک اجاڑتی رہی ہیں۔ آج کا انسان ٹیکنالوجی اور میڈیکل سائنس کے عروج پر کھڑا ہے اور وہ ناصرف کرونا وائرس بلکہ دیگر وبائی امراض سے بہتر طور پر نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر یہ عوام کی مدد اور ان کی جانب سے حفاظتی تدابیر اور صحت و صفائی کا خیال رکھے بغیر ممکن نہیں ہے۔

 

سائنسیا کی مینجمنٹ ایڈیٹر ماہم مقصود


سائنسیا پاکستان میگزین کی مینجمنٹ ایڈیٹر ماہم مقصود کے جو قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بایو کیمسٹری کی طالبہ ہیں مطابق کرونا وائرس ایڈیشن پر ہماری توقع سے زیادہ اچھا ریسپانس موصول ہوا اور اساتذہ کے علاوہ کچھ سینیئر سائنس کور کرنے والے صحافیوں  نے بھی رپورٹنگ کے حوالے سے ہماری بھرپور مدد اور راہ نمائی کی اور ہمارے ایڈیشن کے لیے مضامین بھی تحریر کیے۔ ان میں بول نیوز سے فواد رضا اور ایکپریس نیوز سے سہیل یوسف شامل ہیں۔ لمز سے ہیلتھ ایکسپرٹ بہزاد تیمور نے بھی کرونا سے متعلق میتھس کو ختم کرنے کے لیے دو مفصل آرٹیکلز اس ایڈیشن  کے لیے تحریر کیے ہیں۔ یہ مضامین بلاشبہ پاکستان میں ہر شہری کو پڑھنے چاہیں۔

اس کے ساتھ ہی قائد اعظم یونیورسٹی کی طالبات نے اپنے سینیئر استاد ڈاکٹر طاہر وحید سے پولیو ویکسین پر ایک مفصل انٹرویو کیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ موجودہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پولیو  کے خلاف مہم دنیا بھر میں شدید متاثر ہوئی ہے اور لا محالہ اگلے چھ ماہ میں پولیو کیسز تیزی سے بڑھنے کا خطرہ ہے۔ اس انٹرویو میں ہم  نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے تعلیمی تعطل اور آن لائن کلاسوں میں طلبہ کو درپیش مسائل پر بھی تفصیل سے بات کی ہے۔

ہماری ٹیم ملک کے مختلف شہروں میں کرونا سے متعلق آگاہی مہم چلانے کا بھی حصہ ہے اور ہم سائنسی معلومات بلوچی، پشتو، براہوی، سندھی، پنجابی اور دیگر علاقائی زبانوں میں ترجمہ کرنے پر بھی کام کر رہے ہیں جو اس ایڈیشن کا بھی حصہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میگزین کی ایڈیٹوریل ٹیم کی رکن خولہ عابد کے جو لاہور یونیورسٹی آف ویٹرنٹی اینڈ اینیمل میڈیسن کی طالبہ اور معروف سائنس جریدے سائنٹسٹا کی سابق ایڈیٹر بھی ہیں مطابق کرونا وائرس اور دیگر وائرل امراض پر ایک مکمل میگزین ایڈیشن نکالنا ان کی زندگی کا ایک بہترین تجربہ تھا۔ ’ہم  نے کم سے کم وقت میں وہ تمام امور اور مسائل اپنے مضامین میں یکجا کرنے کی کوشش کی ہے جس سے فی الوقت عالمی وبا کی وجہ سے پاکستانی قوم دوچار ہے۔ اس میں سائنسی حقائق کو پوری سچائی اور امانت داری سے شامل کیا گیا ہے۔ پاکستانی میڈیا اور اخبارات میں زیادہ تر جو مضامین شائع کیے جا رہے ہیں ان میں فیکٹ چیکنگ کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا شاید اس لیے کہ زیادہ تر ایڈیٹر صاحبان سائنسی صحافت کی درست معلومات نہیں رکھتے۔ یہ سیاست نہیں ہے جس پر کوئی بھی اپنی رائے دے سکتا ہے اور اسے شائع کر دیا جائے۔ عوامی صحت سے متعلق امور پر صرف وہی لوگ لکھ سکتے ہیں جو مکمل معلومات اور اس فیلڈ کا تجربہ رکھتے ہوں یا اس سے متعلقہ لوگوں سے جڑے ہوئے ہوں۔‘

ایڈیٹوریل ٹیم کی رکن خولہ عابد


کرونا وائرس اور دیگر وائرل امراض سے متعلق درست معلومات پر مشتمل اس ایڈیشن میں حصہ لینے والے طلبہ اپنی اس کاوش پر لائق ستائش ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یونیورسٹیاں سائنسیا پاکستان جیسے سائنس میگزین میں معاونت کریں یا اسی طرح کے دیگر سائنسی جریدوں کا آغاز کیا جائے جن سے ناصرف طلبہ میں لکھنے کا شوق پیدا ہوگا بلکہ ملک بھر سے سائنسی صحافت میں دلچسپی رکھنے والے دیگر افراد کو بھی ایک پلیٹ فارم ملے گا۔

پاکستان میں سائنس صحافت کا حصہ کبھی بھی نہیں رہی یہاں تک کہ آئی بی اے کراچی کے سینٹر آف ایکسیلینس ان  جرنلزم میں جو سلیبس پڑھایا جا رہا ہے اس میں بھی سائنسی صحافت بطور مضمون شامل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مشکل کی گھڑی میں میڈیا میں ایسے صحافیوں کی شدید قلت ہے جو میڈیا ایڈیٹرز کی رہنمائی کر سکیں کہ وبا کے دوران کوریج کس طرح کرنی ہے۔ 24 گھنٹے کی کرونا ٹرانسمیشن سے ناصرف عوام میں خوف بڑھ رہا ہے بلکہ لامحالہ بددلی بھی جنم لے رہی ہے۔  ضرورت اس امر کی ہے کہ صحت، تعلیم  اور امراض سے متعلق پروگراموں کو مخصوص اوقات میں اور زیادہ مؤثر انداز میں پیش کیا جائے ۔

۔۔۔۔۔

مصنفہ صادقہ خان کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ وہ ایک فری لانس سائنسی صحافی ہیں اور حکومت پاکستان کی جانب سے نیشنل سائنس ایوارڈ 2019 حاصل کر چکی ہیں۔ صادقہ باقاعدگی سے سائنسی مضامین اور بلاگز تحریر کرتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس