کیا واقعی فائیو جی کے ٹاور کرونا وائرس پھیلا رہے ہیں؟

فائیو جی ٹاورز کی تابکاری کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بن رہی ہے، اس سازشی نظریے نے لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کر رکھا ہے، لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟

کئی سائنس دان فائیو جی ٹیکنالوجی کے حوالے سےمفروضوں کومسترد کر چکے ہیں (اے ایف پی)

فائیو جی ٹاورز کی تابکاری کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بن رہی ہے، ان بے بنیاد سازشی نظریات نے سوشل میڈیا اور میسجنگ ایپس پر انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی نئی جنریشن کے متعلق لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔

برطانوی حکومت کو ملک بھر میں فائیو جی روکنے کا حکم دینے کی درخواست پر مبنی ایک آن لائن پٹیشن پر اب تک ایک لاکھ 10 ہزار دستخط کیے جا چکے ہیں اور ایسا کرنے والوں میں کئی مشہور شخصیات بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنے مداحوں سے یہ پٹیشن شیئر بھی کی۔

دی چینج ڈاٹ او آر جی نے خود ساختہ سائنسی مفروضے کو اس غلط دعوے کی بنیاد بنایا ہے، جس کے مطابق فائیو جی صحت کے لیے خطرہ ہے اور یہ کینسر سے لے کر کرونا وائرس کے پھیلاؤ تک کا سبب ہے۔

اس پٹیشن کو شروع کرنے والے شخص کا نام ڈیلروئے چن ہے، جنہوں نے لکھا کہ فائیو جی ٹاورز سے پیدا ہونے والی تابکاری ماحول میں موجود آکسیجن کھینچ لیتی ہے اور انسانی جسم کو متاثر کرتی ہے۔

انہوں نے لکھا 'ہمارا جسم 85 فیصد پانی پر مشتمل ہے اور شارٹ ویو شعاعیں ہمارے فطری نظام میں توڑ پھوڑ کا باعث بنتے ہوئے کینسر اور صحت کے دوسرے مسائل پیدا کرتی ہیں۔

'فائیو جی سے متاثر ہونے کی علامات میں سانس کے مسائل، زکام کی علامات مثلاً بخار، سر درد، نمونیا وغیرہ شامل ہیں۔ بالکل کرونا کی علامات کی طرح۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹیلی ویژن کی مشہور شخصیت اماندہ ہولڈن بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو اس خوف زدہ کرنے والی پٹیشن کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے 20 لاکھ فالوورز کے ساتھ اسے شیئر بھی کیا۔

یہ دعوے برطانیہ میڈیا کو میڈیا ریگولیٹری ادارے اوفکوم سے جاری کی جانے والی تنبیہ کی وجہ بھی بنے ہیں۔ وارننگ میں نشریاتی اداروں کو کہا گیا ہے کہ وہ سازشی نظریات کو نہ پھیلائیں کیونکہ ایسا کرنے سے ایک صحت کے بحران کے دوران 'معلومات کے ذرائع کے حوالے سے لوگوں کے اعتماد میں کمی کا خدشہ ہے۔'

کئی سائنس دان فائیو جی ٹیکنالوجی کے حوالے سے اس تشویش کو مسترد کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق فور جی اور سیلولر ٹیکنالوجی کی باقی اقسام کی طرح فائیو جی بھی الیکٹرو میگنیٹک شعاعوں کو استعمال کرتی ہے جو تابکاری کی وجہ نہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا کہ 'گذشہ دو دہائیوں کے دوران کئی بار تحقیق کی گئی کہ کیا موبائل فون انسانی صحت کے لیے خطرہ ہیں یا نہیں۔ آج تک موبائل فون کے استعمال سے ہونے والے صحت کو لاحق خطرات کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔'

یہ حالیہ ہفتوں میں کرونا سے متعلق پھیلنے والی پہلی آن لائن سازشی کہانی نہیں۔ مارچ میں فرانسیسی حکومت کو یہ بیان جاری کرنا پڑا تھا کہ کوکین کا استعمال خطرناک کرونا وائرس سے محفوظ رکھنے میں مدد گار نہیں۔

یہ بیان ان وائرل میمز کے ردعمل میں جاری کیا گیا تھا جن میں ایڈٹ شدہ خبروں کی سرخیوں کے مطابق اس اعلیٰ معیار کے نشے کی کرونا کے خلاف موثر ہونے کی تعریف کی گئی تھی۔

فرانس کے وزیر صحت اور یکجہتی نے اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ 'نہیں کوکین کووڈ 19 کے خلاف حفاظت فراہم نہیں کرتی۔ یہ ایک نشہ ہے جو نقصان دہ اور خطرناک اثرات رکھتا ہے۔'

یوٹیوب اور وٹس ایپ سمیت باقی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پھیلائے جانے والی ان غلط خبروں کو ڈبلیو ایچ او کی جانب سے 'انفو ڈیمک' قرار دیا جا چکا ہے۔ 

غلط خبروں کے مقابلے کے لیے اقوام متحدہ نے ایک آن لائن پروگرام شروع کیا ہے جس میں کرونا سے متعلق مصدقہ اور سرکاری حکام سے حاصل کردہ معلومات کو اربوں لوگوں تک پہنچایا جا رہا ہے۔

دنیا بھر میں ابھی تک کرونا سے متاثرہ تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہو چکی ہے جب کہ 55 ہزار اموات واقع ہوئی ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی