لاک ڈاؤن کے باعث زمین کی لرزش میں کمی

دنیا کے کئی ممالک میں لوگوں کو کام پر نہ جانے اور گھروں پر رہنے کی ہدایات کے باعث فیکٹریوں اور ٹریفک نہ چلنے کی وجہ سے سیسمک نوائز یعنی زمین کی حرکت کے شور اور ارتعاش میں واضح کمی واقع ہوئی ہے: ماہرین

ڈاکٹر لیکاک کے مطابق ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ انسانی سرگرمیوں میں کمی زلزلوں کے امکانات میں بھی کمی کا باعث بن سکتی ہے۔(فائل تصویر: اے ایف پی)

سائنس دانوں کے مطابق کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر دنیا بھر میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے زمین کی لرزش میں کمی واقع ہوئی ہے۔

دنیا کے کئی ممالک میں لوگوں کو کام پر نہ جانے اور گھروں پر رہنے کی ہدایات کے باعث فیکٹریوں اور ٹریفک نہ چلنے کی وجہ سے سیسمک نوائز یعنی زمین کی حرکت کے شور اور ارتعاش میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔

محققین نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یہ تبدیلی نہ صرف زلزلوں کے اشاروں کو قبل از وقت پہچاننے میں مدد دے گی بلکہ انسانیت کو ماحول کے حوالے سے ایک سبق بھی دے گی۔

کارخانوں، گاڑیوں، ٹرینوں، بسوں اور انسانوں کی روز مرہ مصروفیات زمین کی سطح پر شور پیدا کرتی ہیں۔ یہ دنیا بھر میں موجود ان ہزاروں ڈی ٹیکٹرز نے جانچا ہے جو زلزلے کی پیمائش کے لیے نصب کیے گئے ہیں۔

 رائل آبزرویٹری آف بیلجیئم کے سسمالوجسٹ تھامس لیکاک کی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ گذشتہ ماہ کے وسط سے اب تک برسلز میں زمینی شور کی سطح میں 30 سے 50 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔ یہ وہی وقت تھا جب برسلز میں سکول اور کاروبار بند کیے گئے تھے۔

کئی دیگر ماہرینِ ارضیات نے بھی شور میں اسی قسم کی کمی کو نوٹس کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لندن کی سسمالوجسٹ پاولا کوئلیمیجیر کا کہنا ہے کہ لندن میں بھی لاک ڈاؤن کے فوری بعد شور میں واضح کمی کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 'جس سٹیشن میں سب سے زیادہ کمی دیکھنے میں آئی ہے وہ شہر کا صنعتی ضلع ہے۔'

لندن کے ایمپیریل کالج میں زلزلہ ماہر سٹیفن ہکس کے مطابق ایم فور پر موجود ڈی ٹیکٹرز نے بھی دن کے دوران اوسط شور کی سطح میں کمی نوٹس کی ہے۔

ڈاکٹر لیکاک جو اس سوال کا جواب جاننے کے لیے اس منصوبے پر کام کر رہے کہ کیا سائنس دان زمین کی سطح سے بہتر پیمائش کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برسلز میں اس دوران دیکھی جانے والی سطح وہی ہے جو کرسمس کے دنوں میں ہوتی ہے۔

کئی ڈی ٹیکٹرز ایسے علاقوں میں نصب ہیں جو عام طور پر بھی زیادہ شور والے نہیں ہیں اور وہاں موجود آوازوں کو انسانی شور سے نہیں ملایا جاتا لیکن برسلز وہ علاقہ ہے جو ایک مصروف ترین مرکز ہے۔

ڈاکٹر لیکاک نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ انسانوں کے پیدا کردہ ارتعاش کو ڈی ٹیکٹ کرنے والے پر شور سٹیشنز پر لاک ڈاؤن کے بعد چھوٹے زلزلوں کے سگنلز کو جانچنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کا ایک سماجی پہلو بھی ہے۔ 'ہر کوئی سوچتا ہے کہ وہ گھر پر اکیلا ہے لیکن ہم سب ایک ساتھ مل کر ارضیاتی حرکت میں اضافہ کر رہے ہیں، جس سے ہم ماحول کے باقی پہلوؤں کے بارے میں سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم جس وجہ سے گھروں پر موجود ہیں وہ خوفناک ہے لیکن مستقبل میں انسانوں کی ایک اہم تعداد اپنی عادات کو بدل لے گی جن میں اکیلے فرد کے لیے ایک گاڑی میں سفر کرنا جیسی عادات شامل ہیں۔'

ڈاکٹر لیکاک کے مطابق ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ انسانی سرگرمیوں میں کمی زلزلوں کے امکانات میں بھی کمی کا باعث بن سکتی ہے۔

لیکن واشنگٹن ڈی سی کے سسمالوجسٹ اینڈی فراسیٹو نے نیچر میگزین کو بتایا کہ اگر لاک ڈاؤن جاری رہتا ہے تو اگلے مہینوں میں شہروں میں موجود ڈی ٹیکٹرز زلزلوں کے آفٹر شاکس کے مقامات کی درست انداز میں نشاندہی کر سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آپ کو سطح پر کم شور کے ساتھ ایک سگنل ملے گا جو آپ کو ان واقعات کے بارے میں تھوڑی زیادہ معلومات حاصل کرنے کا موقع دے گا۔'

سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران انسانی سرگرمیوں میں کمی کے باعث فضائی آلودگی کی مقدار میں بھی واضح کمی دیکھی گئی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات