لاک ڈاؤن سے نکلنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

اب جب 14 اپریل تک لاک ڈاؤن میں توسیع کا کہا گیا ہے تب تک مستقبل قریب اور بعید دونوں کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے، لاک ڈاؤن ختم کرنے کے بعد کیا کرنا ہے وزیر اعظم عمران خان کو یہ طے کرنا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان لاہور میں ایکسپو سینٹر میں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے قائم کیے گئے عارضی ہسپتال کا جائزہ لیتے ہوئے (پی آئی ڈی) 

جب پوری دنیا میں لاک ڈاؤن ہوا تو کیسے ہو سکتا تھا کہ پاکستان میں نہ ہوتا۔

یہ اور بات ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک جو بہت امیر بھی ہیں، جن کے بلدیاتی نظام بھی بڑے زبردست ہیں، جن کے پاس وسائل کی بھی کمی نہیں ان حکومتوں میں بھی سوائے چین کے کسی نے یہ نہیں کہاکہ ہم عوام کو گھر گھر راشن اور دیگر اشیا خوردنوش پہنچایں گے۔

لیکن پاکستان، جہاں پہلے ہی معیشت بےساکھیوں پر ہے، بلدیاتی نظام نہ ہونے کے برابر ہے، نہ عوام کا ڈیٹا ہے، نہ دیہاڑی دار رجسٹرڈ ہیں، لوگوں کو کھانے کے لالے ہیں وہاں راشن گھر گھر پہنچےگا۔ کیسے؟

امریکہ جیسی ریاست جہاں کرونا (کورونا) کیسسز کی کل تعداد تقریبا ڈھائی لاکھ ہے جن میں سے چھ ہزار سے زائد کی موت ہو چکی ہے وہاں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ ہم گھر گھر راشن پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن ہماری حکومتیں یہ اعلانات کر رہی ہیں کہ تمام لوگ گھر بیٹھیں اور ہم گھر گھر راشن پہنچائں گے۔ یہ الگ بحث ہے جس کے لیے وفاقی حکومت نے ٹائیگر فورس بنائی ہے جیسا کہ برطانیہ میں بھی ہو رہا ہے۔ اس سے فائدہ  کتنا ہوگا ابھی کہنا مشکل ہے۔

اس وقت جس ایک اور بڑے مسئلے کی طرف حکومتوں کو ابھی سے سوچنا شروع کر دینا چاہیے وہ ہے کہ لاک ڈاؤن ختم کیسے کرنا ہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟ کیونکہ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ لاک ڈاؤن چند ہفتوں کا ہی ہو سکتا ہے ورنہ جن لوگوں تک راشن نہیں پہنچ رہا اور ان کو فوج، پولیس اور دیگر ادارے گھروں میں بیٹھنے پر مجبور کریں گے تو ایک نیا سیاسی ہیجان پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ لوگ بھوک اور افلاس کی وجہ سے فوج اور پولیس سے الجھ پڑیں گے، چوریاں اور ڈاکے شروع ہو جائیں گے اور ایک طرف ہوگی عوام اور دوسری طرف ہوں گے انہی کے محافظ۔

حکومت کے لیے چند مشورے۔۔۔

سب سے پہلے تو جو ہماری کریانے کی، کیمسٹ کی دکانیں اور یوٹیلٹی سٹور ہیں انہیں پورے ملک میں کھول دینا چاہیے۔ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ تمام سٹور سارا دن کھلے رہیں گے تاکہ عوام پریشانی میں ان دکانوں پر ہجوم  نہ لگائیں بلکہ صرف ضرورت کے تحت ہی وہاں جائیں۔  اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں دفعہ 144 کا نفاذ رہے تاکہ لوگوں کو یہ بھی پتہ ہو کہ چار سے زیادہ لوگوں کو کہیں اکٹھے ہونے کہ اجازت نہیں۔ اس اقدام سے عوام کو اس بات کا اعتماد ہوگا کہ ملک میں اشیا  خوردنوش کی کوئی کمی نہیں، نہ ہی سپلائے معطل ہے اور صورت حال حکومت کے قابو میں ہے۔

کراچی میں کلفٹن کے علاقے میں اتوار کو لاک ڈاؤن کا ایک منظر (اے پی پی)


اب بات آتی ہے دیہاڑی دار مزدور کی جس کے پاس نقد رقم ہی نہیں ہے کہ وہ جا کر آٹے کی بوری، دال کا تھیلا یا چینی یا گھی خرید سکے۔ ان کے لیے یہ کیا جا سکتا ہے کہ بنیادی موبائل ایپلیکیشن بنا کر موبائل یا کسی ٹیب کی مدد سے یوٹیلٹی سٹورز پر یا دیگر کریانے کی دکانوں پر مہیا کر دی جائے تاکہ جس شخص کے پاس نقد نہیں ہے وہ وہاں اپنا شناختی کارڈ دکھا کر بنیادی اشیا خوردنوش مفت حاصل کر سکے۔ حکومتیں ان سٹورز کو اس مال کی دو دن یا تین دن بعد قیمت ادا کر دے۔ یہ ڈیٹا تمام حکومتوں کے پاس پہنچتا جائے چاہے وفاقی ہو یا صوبائی تاکہ ذخیرہ اندوز حکومت کے اس اقدام کا اپنے مفاد کے لیے ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکیں۔

وزیر اعظم عمران خان کو مجبور کیا گیا کہ ملک بند کر دیں حالانکہ وزیر اعظم کی صحافیوں سے جو پہلی ملاقات ہوئی تھی اس دن سے وہ مکمل لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھے اور آج بھی نہیں ہیں۔ صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ ترکی میں جہاں کرونا وائرس کیسسز کی کل تعداد 24 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے وہاں بھی ترک صدر رجب طیب اردوان مکمل لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں رہے بلکہ انہوں نے اپنے لوگوں کو گھر میں رہنے کی بار بار تلقین کی ہے۔

تو اب جب میڈیا اور دانشوروں کی تسلی کے لیے لاک ڈاؤن ہو ہی گیا جو کہ برائے نام ہی تھا کیونکہ جب آپ دینی مراکز اور مساجد میں لوگوں کو اجتماعات اور جمعے کی نماز کی ادائیگی سے نہ روک سکے تو کاہے کا لاک ڈاؤن۔

سب وزیر اعظم سے لاک ڈاؤن کا مطالبہ تو کر رہے تھے لیکن اتنی ہمت کسی میں نہیں تھی کہ اپنے پروگراموں میں یہ کہہ سکیں کہ مساجد کو بھی بند کرنا ہوگا۔ اس ملک میں چار سے پانچ لاکھ مساجد ہیں اور ہر مسجد میں اگر 50 لوگ بھی اکٹھے ہوں تو یہ وبا کس آگ کی طرح پھیلے گی اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں گذشتہ جمعہ کو بھی ایک پریشان کن منظر دیکھا گیا کہ عوام پولیس پر حملہ آور ہوگئی جب اس نے لوگوں کو نماز گھر میں پڑھنے کے لیے مجبور کیا۔

فیصلے کیسے لیے جاتے ہیں یہ ہمیں سیکھنا چاہیے سعودی عرب سے جہاں ایک ہی جھٹکے میں تمام عوامی مقامات کو بند کر دیا گیا بشمول خانہ کعبہ اور مسجد نبوی، جنہیں بند کرنے کے بارے میں سوچنا بھی بڑا مشکل کام ہے۔ لاک ڈاؤن ہو تو ایسا ہو ورنہ جو یہاں ہے اس پر تو بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ دل کے بہلانے کو خیال اچھا ہے غالب۔ ان تمام ممالک میں لوگوں کو ازان کے ذریعے یہ بتایا گیا کہ گھر میں بیٹھ کر نماز ادا کریں۔ یہ ہوتی ہے منطقی فیصلہ سازی، وہ نہیں جو ایک حکومت دوسری حکومتوں سے آگے نکلنے کے غرض سے کرے۔

اب جب 14 اپریل تک لاک ڈاؤن میں توسیع کا کہا گیا ہے تب تک مستقبل قریب اور بعید دونوں کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ لاک ڈاؤن ختم کرنے کے بعد کیا کرنا ہے وزیر اعظم عمران خان کو یہ طے کرنا ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن ختم کرنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوگا کہ کرونا سے جان چھوٹ گئی اور اب احتیاط نہ کی جائے۔ احتیاط بہرحال لازمی ہوگی۔ کیونکہ کرونا سے بچاو کا واحد حل احتیاط ہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ