نماز جمعہ: ’سماجی دوری پر عمل نہ کرنے سے والد شکار ہوگئے‘

اسلام آباد کے بشیر اور ان کے والد نماز جمعہ پر پابندی کے باوجود مسجد چلے گئے، جہاں معاشرتی دوری کا خیال رکھے بغیر بڑی جماعت کی شکل میں نماز ادا کی گئی۔

وفاقی ا ور صوبائی حکومتوں نے مساجد میں لوگوں کے اکھٹا ہونے پر پابندی عائد کر رکھی ہے تاکہ کرونا وبا نہ پھیلے (اے ایف پی) 

’میرے والد قریبی مسجد میں نماز کی ادائیگی کے علاوہ گھر سے باہر نہیں جاتے تھے لیکن اکثر نماز جمعہ کے لیے ساتھ والی ایک کالونی کی جامع مسجد جاتے، جہاں سماجی دوری نہ رکھنے کی وجہ سے کرونا وائرس ان تک پہنچ گیا۔‘

یہ کہنا تھا اسلام آباد کے پی ڈبلیو ڈی روڈ پر واقع ایک کالونی کے رہائشی عبدالحمید بشیر (فرضی نام) کا۔ دل کے عارضے میں مبتلا ان کے 58 سالہ والد کا کرونا وائرس ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔

بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'میرے والد نماز کے علاوہ گھر سے باہر نہیں جاتے اور گذشتہ دنوں ان سے کوئی ملنے بھی نہیں آیا۔' انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے والد آخری مرتبہ27 مارچ کو جمعہ پڑھنے ساتھ والی کالونی کی بڑی جامع مسجد گئے تھے۔ 

دنیا بھر میں پھیلی ہوئی کرونا (کورونا) وائرس کی وبا روکنے کا واحد حل سوشل ڈسٹنسنگ یعنی معاشرتی دوری کو قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کی صورت حال ہے، جس کا مقصد لوگوں کو گھروں تک محدود رکھ کر معاشرتی دور کو یقینی بنانا ہے۔

صوبائی حکومتوں نے اس مقصد کے لیے مساجد میں نمازوں کی ادائیگی کے لیے پانچ سے زیادہ نمازیوں کے اکٹھا ہونے پر پابندی عائد کی، جس کی علما اور کئی دینی مدارس نے بھی حمایت کی۔  

تاہم ملک کے بعض حصوں سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے موقعے پر سرکاری احکامات کی خلاف ورزی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ کراچی اور اسلام آباد میں کئی افراد کے خلاف نماز جمعہ کے لیے لوگوں کو اکٹھا کرنے پر مقدمات دائر کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بشیر اور ان کے والد بھی ان ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نماز جمعہ کے لیے مسجد گئے تھے، جہاں معاشرتی دوری کا خیال رکھے بغیر بڑی جماعت کی شکل میں نماز ادا کی گئی۔

اسی بے احتیاطی کے باعث بشیر کے والد، جو دل کے عارضے میں مبتلا ہیں اور 2015 میں انجیو پلاسٹی کروا چکے ہیں، کووڈ۔19 بیماری کا شکار ہو گئے۔

بشیر نے بتایا کہ ان کے والد کو تقریباً آٹھ روز سے بخار اور سینے کی تکلیف محسوس ہو رہی تھی اور اکثر رات کو بخار 102 ڈگری تک چلا جاتا۔

طبیعت کی ناسازی کے چوتھے روز وہ اپنے والد کو پی ڈبلیو ڈی روڈ پر واقع ایک نجی ہسپتال لے گئے، جہاں انہیں اینٹی بائیوٹکس اور بخار کے لیے پیناڈال دے کر گھر بھیج دیا گیا۔ دوائی استعمال کرنے کے باوجود ان کے والد کی طبیعت سنبھلنے کی بجائے مزید خراب ہوتی گئی۔

تین اپریل کو وہ والد کو اپنے محکمے کے قائم کردہ ہسپتال لے گئے، جہاں ان کا کرونا وائرس کے لیے ٹیسٹ کیا گیا۔ ٹیسٹ مثبت آنے پر انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا جبکہ باقی اہل خانہ گھر کے اندر قرنطینہ میں ہیں۔

کالونی کی تین چار گلیوں کو سِیل کرتے ہوئے وہاں جراثیم کش سپرے کیے گئے اور رہائشیوں کو گھروں تک محدود رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ بشیر اور گھر کے چار دوسرے افراد سے کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے لیے نمونے حاصل کر لیے گئے ہیں، جن کا نتیجہ آنا باقی ہے۔

بشیر فیس بک پوسٹ میں لکھتے ہیں: 'کرونا وائرس کے متاثرہ شخص میں ضروری نہیں کہ وہی علامات نظر آئیں جو بتائی جاتی ہیں۔ میرے والد میں کافی دنوں تک ایسی کوئی علامات نہیں تھیں لیکن وہ متاثر ہو چکے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ معمولی بخار، کھانسی یا سینے کی خرابی کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کر کے کرونا وائرس کا ٹیسٹ کروانا چاہیے۔ 

وہ اپنے فیس بک پیج پر مزید لکھتے ہیں: 'میں نے اس تجربے سے یہ سیکھا کہ آپ یا آپ کے اہل خانہ گھر سے باہر جائیں گے تو کرونا وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں کیونکہ باہر اس مہلک وائرس کے فعال اور غیر فعال کیرئیرز موجود ہیں۔'

زیادہ پڑھی جانے والی صحت