کرونا کے خلاف جنگ: ڈرون انسانوں کی مدد کیسے کر رہے ہیں؟

چین میں گذشتہ سال دسمبر میں کرونا وائرس منظر عام پر آنے کے بعد پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں تیزی سے پھیلنے والے اس مہلک وائرس پر قابو پانے کی بھرپور کوششوں میں ٹیکنالوجی کا سہارا لے رہی ہیں۔

اگر آپ لاک ڈاؤن کے باجود  باہر مٹر گشت کر رہے ہیں اور یکایک ایک ڈرون آپ کے سر پر منڈلاتا ہوا ' چیخنے لگے' تو پریشان نہ ہوں۔ وہ در اصل آپ کو واپس گھر جانے کا کہہ رہا ہے اور دھیان رکھیں کہ حکام آپ کو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتا دیکھ رہے ہیں۔

اسی طرح اگر آپ کرونا (کورونا) وبا کے دنوں میں  بغیر فیس ماسک کے باہر نکلیں تو خبردار رہیں، کہیں نہ کہیں کوئی 'اڑتا ربورٹ' آپ کا ڈیٹا سرکاری حکام تک پہنچا سکتا ہے۔

اوپر دی گئی مثالیں بالترتیب مشرق وسطیٰ اور چین کی ہیں، جہاں حکام کرونا وبا سے لڑائی میں ٹیکنالوجی کو بطور آلہ استعمال کر رہے ہیں۔

چین میں گذشتہ سال دسمبر میں کرونا وائرس منظر عام پر آنے کے بعد پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں تیزی سے پھیلنے والے اس مہلک وائرس پر قابو پانے کی بھرپور کوششوں میں ٹیکنالوجی کا سہارا لے رہی ہیں۔

اس وقت کرونا وبا کی وجہ سے  دنیا کے تقریباً تین ارب لوگ گھروں میں محصور ہیں اور روز مرہ کے معاملات بری طرح متاثر ہیں۔ ان حالات میں روبوٹ اور ڈرون کے کردار کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔

روبوٹ کئی مقامات پر لاک ڈاؤن کے شکار لوگوں کو ٹیلی میڈیسن کی مدد سے طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں، جبکہ انہیں مریضوں کے گھروں تک دوائیاں پہنچانے، آن لائن خریداری کا سامان، کھانا اور ڈاک وغیرہ کی ترسیل کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک طرف روبوٹ کئی ریستوانوں میں پکا ہوا کھانا گاہکوں تک پہنچا رہے ہیں تو وہیں ڈچ کمپنی ’یو وی ڈی روبوٹس‘ کے روبوٹ چینی ہسپتالوں میں مریضوں کے کمروں اور وارڈوں کو جراثیم سے پاک کرنے کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

یہ روبوٹ ہسپتال میں الٹرا وائلٹ شعاعیں پھینکتے ہیں، جس سے اس مقام پر موجود وائرس اور بیکٹیریا ختم ہو جاتے ہیں۔

روبوٹوں کے علاوہ ڈرون بھی مختلف صورتوں میں کرونا وبا کی روک تھام کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ ان ڈرونز کے ذریعے لاک ڈاؤن پر عمل درآمد، سرکاری اعلانات حتیٰ کہ لوگوں کے درجہ حرارت تک چیک کیے جا رہے ہیں۔

ان دنوں چینی کمپنی مائیکرو ملٹی کاپٹر کے 100 سے زائد ڈرون کئی شہروں میں گشت کرنے، ہجوم پر نظر رکھنے کے علاوہ ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

 یہ ’اڑتے روبوٹ‘ مختلف علاقوں میں سرکاری اعلانات بھی نشر کرتے ہیں اور وہ لوگ جو چہرے پر ماسک نہیں پہنتے، ان کا ڈیٹا حکام تک پہنچاتے ہیں۔

یہ ڈرون عوامی مقامات پر جراثیم کش سپرے کرنے کے لیے بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کرونا وبا سے انتہائی متاثر سپین میں جراثیم کش سپرے کے لیے زرعی ڈرون کا استعمال شروع ہو چکا ہے۔

ڈرون کا ایک اور مفید استعمال تھرمل سینسنگ کی مدد سے چلتے پھرتے لوگوں کا درجہ حرارت ریکارڈ کرنا ہے، تاکہ کرونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کی شناخت ہو سکے۔

پاکستان میں اس حوالے سے فی الحال زیادہ کام نہیں ہوا لیکن مشرق وسطیٰ میں یہ ’اڑتے روبوٹ‘  انتہائی سرگرم ہیں۔

اردن میں حکام کرفیو پر سختی سے عمل درآمد کے لیے ڈرون کے ذریعے شہروں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اردن میں گذشتہ مہینے لگنے والے کرفیو کے بعد اب تک کم از کم 1600 افراد کو کرفیو توڑنے پر گرفتار کیا جا چکا ہے۔

اسرائیلی حکام ساحلہ شہر نہاریا کے ساحلوں اور ایسے تمام مقامات پر ڈرون کی مدد سے نظر رکھے ہوئے ہیں جہاں کرونا وبا پھیلنے کے خدشات ہیں۔ 

کویت کا زیادہ تر حصہ بھی لاک ڈاؤن کا شکار ہے اور وہاں حکام مارچ کے وسط سے ڈرون کے ذریعے مختلف زبانوں میں لوگوں کو گھروں سے باہر نہ نکلنے کے اعلان کر رہے ہیں۔

مارچ کے آخری دنوں میں شارجہ اور دبئی پولیس نے لاؤڈ سپیکر سے لیس ڈرون کا سہارا لیا اور عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی، اردو، ہندی اور بنگالی زبانوں میں سرکاری اعلان کیے۔

سعودی عرب میں میونسپل حکام القسام علاقے میں خریداروں کا درجہ حرارت نوٹ کرنے کے لیے تھرمل سکینرز والے ڈرون اڑا رہے ہیں۔

تاہم مغربی دنیا میں ڈرون کی مدد سے عوام پر نظر رکھنے کے عمل پر تنقید بھی سامنے آ رہی ہے۔ برطانیہ میں ایک پارک میں ڈرون کی مدد سے لوگوں کی نگرانی کو کچھ حلقوں نے ’غیر ضروری‘ اور ’نجی زندگی میں مداخلت‘ سے تعبیر کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی